سرینگر//مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں عام بجٹ برائے 19-2018 پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ڈھانچہ جاتی سلسلے وار اصلاحات سے بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرنے والی معیشتوں میں شمار ہونے لگے گااور ملک 8 فیصد سے زیادہ شرح ترقی حاصل کرنے کی راہ پر سختی سے گامزن ہے۔ جیسا کہ مینوفیکچرنگ ، خدمات اور برآمدات اچھی ترقی کے راستے پر واپس آگئی ہیں۔پارلیمنٹ میں بجٹ 2018-19پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے کہاکہ ربیع کی بڑی فصلوں کی طرح ،خریف کی غیراعلان شدہ سبھی فصلوں پر ایم ایس پی ان کی پیداوار کی لاگت کی ڈیڑھ فیصد ہوگی۔ادارہ جاتی زرعی قرضہ 19-2018 کے دوران بڑھا کر گیارہ لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ یہ 15-2014 میں 8 اعشاریہ پانچ لاکھ کروڑ تھا۔22ہزار دیہی ہاٹ کو ، 86 فیصد چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے گرامین زرعی مارکیٹوں میں بدلا جائے گا اور ان کی تجدید کاری کی جائے گی۔کسانوں اور صارفین کے فائدے کے لیے آلو، ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پر قابو پانے کیلئے‘‘ آپریشن گرینز’’ شروع کیا گیا ہے۔ماہی گیری اور مویشی پروری کے شعبوں کے لیے دس ہزار کروڑ روپے کے دو نئے فنڈز کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس دوران وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت نے جی ایس ٹی کو نافذ کئے جانے کے بعد پیش پہلے عام بجٹ 2018-19 میں ڈومیسٹک ویلو ایڈیشن اور میک ان انڈیا کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے موبائل فون ' ٹیلی ویزن' جوس' پرفیوم ' امپورٹیڈ گاڑیاں' ٹرک بس ٹائر' آرٹیفیشئل جویلری ' گھڑیاں اور بچوں کے کھلونے مہنگے ہوجائیں گے جب کہ کاجو اور سولر پینل سستے ہوں گے ۔ پارلیمنٹ میں پیش عام بجٹ میں ٹیلی ویزن کے کل پرزے ' موبائل فون' پھلوں اور سبزیوں کے جوس' پرفیوم اور ٹوائلٹ واٹر' آفٹر شیولوشن' گاڑیوں کے کل پرزے ' پوری طرح تعمیر گاڑیاں' ٹرک اور بس کے ٹائر' سلک فیبرک' جوتا بنانے کے سامان' ہیرے ' جواہرات' گھڑیاں' بچوں کے ویڈیو گیم' موم بتی' پتنگ' چشمے کے شیشے ' سگریٹ لائٹر' مونگ پھلی' زیتون' بنولا اور سورج مکھی کے کچے تیل اور پروسیسڈ خوردنی تیلوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جس سے ان کے مہنگا ہونے کا خدشہ ہے ۔ درمیانی اور اعلی تعلیم کے لئے امپورٹیڈ اشیاء پر لگنے والے تین فیصد سرچارج کو ختم کردیا گیا ہے ۔بانس سے متعلق نو تشکیل شدہ قومی مشن کو 1290 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔خواتین کے اپنی مدد آپ گروپوں کے قرض میں 2019 میں اضافہ کر کے پچھلے سال کی 42500 کروڑ رقم میں اضافہ کر کے اسے 75000 کروڑ روپے کر دیا جائے گا۔اجولا ، سوبھاگیہ اور سووچھ مشن کے لیے نئے نشانے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ نچلے اور متوسط طبقے کو ایل پی چی کنکشنز ، بجلی اور بیت الخلاء مفت فراہم کرایا جا سکیں۔صحت ، تعلیم اور سماجی تحفط پر کیے جانے والے اخراجات ایک اعشاریہ تین آٹھ لاکھ کروڑ روپے کے ہوں گے۔ 2022 تک ہر قبائلی بلاک میں قبائلی طلبا کو ایکلویہ رہائشی اسکول فراہم کیا جائے گا۔ درج فہرست ذاتوں کی بہبود کے فنڈ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔کسی کنبے کے لیے ثانوی اور تیسرے درجے کے علاج کے لیے پانچ لاکھ روپے تک کی حد کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی صحت کی حفاظت سے متعلق اسکیم شروع کی گئی ہے جس میں دس کروڑ سے زیادہ غریب اور کمزور کنبوں کو شامل کیا گیا ہے۔19-2018 کے لیے مالی خسارے کی پیشگوئی 3 اعشاریہ تین فیصدکی گئی ہے جبکہ ابھی یہ تین اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔بنیادی ڈھانچے کے لیے پانچ اعشاریہ نو سات لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔دس مقبول مقامات کو علامتی سیاحتی مقامات میں تبدیل کیا جائے گا۔نیتی آیوگ مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر ایک قومی پروگرام کا آغاز کرے گا۔روبوٹکس ، اے آئی انٹرنیٹ وغیرہ کے سلسلے میں مہارت کے مراکز قائم کیے جائیں گے۔حصص کی فروخت 72 ہزار پانچ سو کروڑ روپے کے نشانے کو پار کر کے ایک لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔سونے سے متعلق جامع پالیسی کے ذریعے سونے کو ایک اثاثے کے زمرے میں شامل کیا جائے گا۔اْن کمپنیوں کے لیے جن کا اندراج فارمر پروڈیوسر کمپنیوں کے طور پر ہے اور جن کا سالانہ مجموعی کاروبار 100 کروڑ روپے تک ہے 19-2018 پانچ سال تک کے لیے سو فیصد تخفیف کی تجویز رکھی گئی ہے۔دفعہ 80 جے جے اے اے کے تحت نئے ملازمین کے لیے ان کی اجرتوں پر 30 فیصد کی کٹوتی کی شرط میں رعایت دیتے ہوئے اب جوتے چپل، چمڑے کی صنعت کے معاملے میں مزید روزگار پیدا کرنے کے لیے 150 دن کے بقدر کر دیا گیا ہے۔غیر منقولہ املاک کے سودوں کے سلسلے میں جہاں سرکل شرح قیمت ، اصل قیمت کی پانچ فیصد سے تجاوز نہیں کرتی کوئی تطبیق نہیں کی جائے گی۔(مالی سال 15-2016 میں) پچاس کروڑ روپے سے کم کے کاروبار والی کمپنیوں کے لیے فی الحال دستیاب 25 فیصد کی تخفیف شدہ شرح میں توسیع کر کے اسے مالی سال 17-2016 میں 250 کروڑ روپے تک کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں تک توسیع دے دی گئی ہے جس سے بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں کو فائدہ ہوگا۔ٹرانسپورٹ بھتے اور مختلف طبی اخراجات کے معاوضے پر موجودہ استثنیٰ کی جگہ 40 ہزار روپے کی معیاری تخفیف شروع کی گئی ہے۔اس سے دو اعشاریہ پانچ کروڑ تنخواہ پانے والے ملازمین اور پنشن حاصل کرنے والے لوگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔معمر حضرات کے لیے راحت کی تجاویز۔ بینکوں اور پوسٹ آفیسز میں جمع سود کی آمدنی پر استثنیٰ کو دس ہزر روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیاہے۔دفعہ 194 اے کے تحت ٹی ڈی ایس نہیں کاٹا جائے گا۔ یہ فائدہ سبھی فکسڈ ڈپازٹ اسکیموں اور ریکرنگ ڈپازٹ اسکیموں سے حاصل ہونے والے سود پر دستیاب ہوگا۔سیکشن 80 ڈی کے تحت صحت بیمہ پریمیم اور / یا طبی اخراجات کی استثنیٰ کی حد 30 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔کچھ خاص سنگین بیماریوں پر آنے والے طبی اخراجات کے لیے استثنیٰ کی حد 60 ہزار روپے (معمر افراد کے کیس میں ) اور 80 ہزار روپے (بہت ہی معمر شہری کے کیس میں) سے بڑھا کر اسے سبھی معمر شہریوں کے لیے ایک لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔پردھان منتری ویا وندنا یوجنا کو مارچ 2020 تک توسیع دینے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ موجودہ سرمایہ کاری کی حد سات اعشاریہ پانچ لاکھ فی معمر شہری کی موجودہ حد میں اضافہ کر کے اسے 15 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔آئی ایف ایس سی میں واقع اسٹاک ایکسچینجوں میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی مالی خدمات مرکز (آئی ایف ایس سی) کے لیے مزید رعایات۔نقد معیشت پر قابو پانے کیلیے ٹرسٹ اور اداروں کے ذریعے کی جانے والی دس ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم کی ادائیگی کی اجازت واپس لے لی گئی ہے اور اس کا انحصار ٹیکس پر ہوگا۔طویل المدت اثاثہ فوائد پر عائد ٹیکس ایک لاکھ روپے سے تجاوز پر دس فیصد کے لحاظ سے نافذ ہوگا اور اس میں کسی طرح کی ٹیکس رعایت دستیاب نہیں ہوگی۔ تاہم 31 جنوری 2018 تک کے تمام فوائد اس سے مستثنیٰ ہیں۔مساویانہ حصص والے میوچول فنڈز کے ذریعے تقسیم کی جانے والی آمدنی پر دس فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ذاتی انکم ٹیکس اور کارپوریشن ٹیکس پر عائد محصول بڑھا کر اسے تین فیصد سے چار فیصد کر دیا گیا ہے۔ملک بھر میں ای جائزہ شروع کرنے کی تجویز ہے، تاکہ فرد سے فرد کے درمیان رابطے کو تقریباً ختم کر دیا جائے جس سے براہ راست ٹیکس وصولی میں زیادہ مستعدی اور شفافیت آ ئے گی۔ملک میں مزید روزگار پیدا کرنے کی غرض سے کسٹم محصولات میں مجوزہ ترامیم اور گھریلو پیمانے پر اشیاء کی قدر و قیمت میں اضافے کے لیے سبسڈی یا ترغیبات کی فراہمی اور میک ان انڈیا شعبے مثلاً خوراک ڈبہ بندی ، الیکٹرانکس، موٹر گاڑی کے پرزے ، جوتے چپل اور فرنیچر وغیرہ کے شعبے میں لائی گئی تبدیلیاں مفید ثابت ہوں گی۔ دیہی ترقی کا محکمہ ، دیہی غریب گھرانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مستقل طورپر کوشاں ہے۔ 13-2012 میں 50162 کروڑ روپے کے مختص کردہ بجٹ کو بڑھا کر 18-2017 میں اسے 109042.45 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔علاوہ ازیں پی ایم جی ایس وائی اور پی ایم اے وائی (جی) میں اعلیٰ فائننس کمیشن کی گرانٹ اور ریاستوں کی بڑی حصے داری بھی 18-2017 میں ڈی او آر ڈی کے پروگراموں کے لئے دستیاب تھی۔ یہ سب ملا کر کے 13-2012 میں دستیاب کل فنڈ کے مقابلے تقریباً 3 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ خزانے اور کارپوریٹ امور کے مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے تنخواہ والے ٹیکس دہندگان کو راحت فراہم کرنے کے لیے تجویز رکھی ہے کہ ٹرانسپورٹ بھتے اور مختلف طبی اخراجات کے معاوضے کے سلسلے میں موجودہ استثنیٰ کے بدلے 40 ہزار روپے کی ایک معیاری تخفیف کی اجازت ہوگی۔ البتہ معذور افراد کو ٹرانسپورٹ بھتہ بڑھی ہوئی شرحوں پر دستیاب کرایا جانا جاری رکھا جائے گا اورسبھی ملازمین کے لیے اسپتال میں داخلے وغیرہ کی صورت میں معاوضے کے دیگر طبی اخراجات بھی فراہم کیے جاتے رہیں گے۔دفاعی شعبے کے لئے مناسب بجٹ امداد کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیح ہوگی۔ آج پارلیمنٹ میں 19-2018 کا عام بجٹ پیش کرتے ہوئے مالیات اور کارپوریٹ اْمور کے مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں دفاعی افواج کی تجدیدکاری اور اس کی عملیاتی صلاحیت میں اضافہ پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ریلوے میں اصلاحات کے لئے کئی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے اس کے لئے الاٹمنٹ کو ایک لاکھ اکتالیس ہزار کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ اڑتالیس ہزار 528کروڑروپے کیا گیا ہے ۔ سیکورٹی کے لحاظ سے تمام ٹرینویں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور وائی فائی سہولیات مہیا کرائے جائیں گے ۔مجموعی طور پر 3600کلومیٹر پٹریوں کی جدیدکار کی جائے گی اور اگلے دوسال میں 4267 بغیر انسانوں کی نگرانی والے ریلوے کراسنگ کو ختم کیا جائے گا۔ بجٹ میں مدرا یوجنا کے لئے تین لاکھ کروڑ روپے ' شیڈولڈ کاسٹ بہبود کے لئے 56619 کروڑ روپے ' شیڈولڈ ٹرائب بہبود کے لئے 39135 کروڑ روپے الاٹ کرنے کی تجویز ہے ۔ گنگا کے کنارے کے 115 اضلاع کو آدرش اضلاع کے طور پر ڈیولپ کیا جائے گا۔ بجٹ میں ٹی بی مریضوں کے لئے غذائیت بخش کھانا کے لئے چھ سو کروڑ روپے ' جب کہ بانس کی کھیتی کو فروغ دینے کے لئے 1290کروڑ روپے کی تجویز رکھی گئی ہے ۔ آلو' ٹماٹر اور پیازکے لئے آپریشن گرین اسکیم کے تحت 500 کروڑ روپے کی تجویز ہے ۔ آلودگی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حکومت نے دہلی کی پڑوسی ریاستوں کو پرالی جلانے کے لئے رعایتی شرح پر مشینیں دینے کی تجویز رکھی ہے ۔ مسٹر جیٹلی نے جب جب غریبوں اور کسانوں کے لئے بجٹ میں تجاویزکا اعلان کیا تب تب وزیر اعظم نریندر مودی نے کھل کر میز تھپتھپائی۔(مشمولات یو این آئی)
سرحدی کشیدگی بڑا چیلنج
جموں وکشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں پر توجہ مرکوز:جیٹلی
نئی دہلی//مرکزی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے’’سرحدی کشیدگی کوسیکورٹی فورسزکیلئے چیلنج‘‘قراردیتے ہوئے جموں وکشمیراورشمال مشرقی ریاستوں کی صورتحال پرتشویش‘‘ظاہرکیا۔لوک سبھامیں نئے مالی سال یعنی2018-19کاسالانہ بجٹ پیش کرنے کے دوران اپنی تقریرمیں ارون جیٹلی کاکہناتھاکہ سیکورٹی فورسزکوسرحدی صورتحال کامقابلہ کرنے میں کئی طرح کے چیلنجزکاسامناکرناپڑتاہے ۔مرکزی وزیرخزانہ کاکہناتھاکہ جموں وکشمیراورملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں تعینات فوج ،نیم فوجی دستوں اورمرکزی فورسزکواندرونی صورتحال بہتربنانے میں سخت مشکلات سے دوچارہوناپڑتاہے ۔تاہم انہوں نے کہاکہ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک میں اندرونی سطح پرہماری فورسزجموں وکشمیراورشمال مشرقی ریاستوں میں اہم رول اداکررہی ہیں ۔ارون جیٹلی نے مزیدکہاکہ میں یہاں فوج کی تینوں شاخوں کی سراہناکرتے ہوئے کہناچاہتاہوں کہ ملکی سا لمیت ،سلامتی اورمفادات کی حفاظت کیلئے ہماری فورسزکی کاوشیں اورقربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔
جموں وکشمیر نظر انداز:چیمبر
سرینگر// مرکزی بجٹ میں جموں کشمیر کیلئے کچھ بھی مخصوص نہ رکھنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹرئز کے صدر جاوید احمد ٹینگہ نے کہا کہ اہل ریاست اس بات کا انتظار کر رہے تھے،کہ مرکزی وزیر خزانہ بجٹ میں دریائے سندھ کے پانی کو استعمال کرنے کا معاوضہ ریاست کو ،این ایچ پی سی،سے بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کیلئے فراہم کریں گی،تاہم انہوں نے ریاستی عوام کو مایوس کیا۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹرئز نے کہا کہ انکی دیرینہ مانگ رہی ہے کہ مرکزی بجٹ میں کشمیر میں بیرون ریاستوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیمہ فراہم کریں،کیونکہ جموں کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے۔ٹینگہ نے کہا کہ بیرون ریاستوں سے تعلق رکھنے والی سرمایہ کار اس کے بغیرکشمیر میں سرمایہ کاری کیلئے تیارنہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ2014کے تباہ کن سیلاب میں کشمیری تاجروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت نے ابتدائی طور پر مرکز کو اپنے ابتدائی رپورٹ میں کہا تھا کہ44ہزار کروڑ روپے کے نقصاان کا تخمینہ لگایا گیا ہے،تاکہ کاروباریوں اور دیگر سرگرمیوں کو بحال کیا جائے،تاہم بجٹ میں اس حوالے سے کوئی بھی چیز نہیں دی گئی۔