ریاست میں تعمیروترقی کے مقصد کیلئے بیشتر محکمہ جات کی طرف سے مرکزی معاونت والی سکیمیں چلائی جارہی ہیں اور ان سکیموں کی احسن طریقہ سے عمل آوری کیلئے وقت بر وقت ملازمین کی تعیناتی عمل میں لاتی گئی ،جن کی مجموعی تعداد ہزاروں میں ہے ۔یہ ملازمین پچھلے کئی برسوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے زندگی کے قیمتی برس قلیل سے مشاہرے پر حکومت کو دے دیئے لیکن اب وہ زندگی کے ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں اپنے ماضی پر رونا آتاہے اور مستقبل تاریک نظر آرہاہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مرکزی معاونت والی سکیموں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ حکام کی طرف سے وعدے تو بارہا کئے گئے مگر ان کو ایفا کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیاگیا اور مسلسل ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ۔حکام کی وعدہ خلافیوں کے خلاف جب یہ ملازمین کچھ عرصہ کے بعد مجبورہوکراحتجاج کاراستہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں نئے سرے سے یقین دہانیاں دی جاتی ہیں اور جب بات زبانی وعدے سے نہ بن پائے توملازمت کو باقاعدہ بنانے اور دیگر مطالبات کاجائزہ لیکر سفار شات پیش کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں لیکن ان کمیٹیوں کی پہلے تو سفارشات ہی مکمل نہیں ہوپاتی اور اگر ایسا ہو بھی ہوجائے تو ان پر عمل کرنے کی زحمت گوارانہیں کی جاتی ۔ان عارضی ملازمین کے تئیں یہی ایک پالیسی ہے جو حکام کی طرف سے اپنائی جارہی ہے اور ایسا صرف اور صرف وقت ٹالنے کے مقصد سے کیاجاتاہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ محکمہ صحت کی طرف سے چلائی جارہی نیشنل ہیلتھ مشن سکیم کے تحت تعینات لگ بھگ پندرہ ہزار ملازمین پچھلے کئی عرصہ سے سراپا احتجاج ہیں جس کی وجہ سے دور درا ز علاقوں میں طبی نگہداشت کا نظام بری طرح سے متاثر ہے لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرے جارہے ہیں ۔این ایچ ایم ملازمین کے مطالبات کا بھی وہی حشر ہواہے جو دیگر ملازمین کے مطالبات کا ہوتاآرہاہے۔محکمہ صحت کی طرف سے کمیٹیاں تو تشکیل دی گئیں اور مطالبات پورے کرنے کیلئے ڈیڈ لائنیں بھی مقررہوئیں مگر عملی سطح پر کوئی اقدام نہیںہوا۔اسی طرح سے محکمہ سماجی بہبود کی طرف سے چلائی جارہی آئی سی ڈی ایس سکیم کی ملازمین بھی حکومت کی سرد مہری کاشکار ہیں اور جہاں سپروائزروں سمیت انہیں پچھلے آٹھ یا اس سے بھی زائد ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی وہیں ان کے دیگر مطالبات کو بھی پورا نہیں کیاگیا۔اس پروگرام کے تحت کام کرنے والی آنگن واڑی ورکر ز اور ہیلپرمعمولی سے مشاہرے پر کام کررہی ہیں اور انہیں اپنی خدمات سے لیکر سیاسی ریلیوں اور سرکاری تقریبات تک کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔ اگر محکمہ دیہی ترقی کی طرف سے چلائی جارہی سکیموں کی بات کی جائے تو ان کا عملہ بھی ناانصافیوں اور وعدہ خلافیوں کاشکار ہے ۔ گزشتہ برس احتجاج کے دوران حکام نے مہاتماگاندھی نریگا ملازمین کو مستقل ملازمت فراہم کرنے اور دیگر مطالبات پورے کرنے کا یقین دلایا اور اس سلسلے میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد ہواہی نہیں کہ ایک اور کمیٹی قائم کردی گئی اور اس محکمہ کی پالیسی بھی کمیٹیوں کے اردگرد ہی گھوم رہی ہے ۔ایسا ہی حال دیگر مرکزی معاونت والی سکیموں کے تحت لگے عملے کا بھی ہے جنہیں اپنے مستقبل کی فکر پریشان کئے جارہی ہے ۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ دس دس بارہ بارہ سال دینے کے بعد اب جب یہ ملازمین دیگر کسی ملازمت کیلئے عمر کی آخری حد بھی پارکرچکے ہیں تو انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے مستقبل کا کیا حشر ہونے جارہاہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر کام یہی عارضی ملازمین سرانجام دیتے ہیں ۔گورنر انتظامیہ نے حال ہی میں ایس ایس اے کے تحت تعینات کئے گئے اساتذہ کو مستقل ملازمت کے دائرے میں لاتے ہوئے ان کی تنخواہوں کو ریاستی بجٹ کے دائرہ اختیار میں بھی لایاہے جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی گئی لیکن دیگر ملازمین کے تئیں کوئی پالیسی مرتب نہیں کی گئی ۔امید کی جانی چاہئے گورنر انتظامیہ مرکزی معاونت والی سکیموں کے تحت تعینات ہوئے ملازمین کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرے گی اور انہیں ان کی خدمات کا صلہ دیاجائے گا۔