مرکزی معاونت سے ریاست میں چلائی جارہی مختلف ترقیاتی و فلاحی سکیموں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کسی جاب پالیسی کے نہ ہونے کے نتیجہ میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ پچھلے کئی کئی برس سے معمولی سی تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ متعلقہ حکام کی طفل تسلیوں اور بے حسی کی وجہ سے انہیں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہاہے۔مرکزی سرکار کی طرف سے ریاست میں ترقی کےنام پر درجنوں سکیمیں شروع کی گئی ہیں جن کیلئے افرادی قوت کے طور پر مختلف محکمہ جات نے مقامی تعلیم یافتہ اور پیشہ ور صلاحیتوں کے مالک نوجوانوں کو تعینات کررکھاہے ۔حالانکہ ان نوجوانوں کی تعیناتی قواعد و ضوابط اور طے شدہ بھرتی عمل کے تحت ہوئی ہے لیکن پھر بھی انہیں اپنا مستقبل مخدوش دکھائی دیتاہے کیونکہ ان کے حوالے سے ریاستی سرکار کی طرف سے کوئی جاب پالیسی وضع نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے دیگر مطالبات پورے کرنے کیلئے سنجیدگی سے کوئی اقدام کیاگیاہے۔دیہی علاقوں میں طبی خدمات کی فراہمی میں اہم رول ادا کرنے والا نیشنل ہیلتھ مشن پروگرام اورروزگارکی فراہمی و اثاثوں کے قیام کے مقصدسے چلائی جارہی معروف سکیم مہاتماگاندھی نریگاکے تحت تعینات ہزارو ں ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں مسلسل احتجاج کررہے ہیں جبکہ اسی طرح سے مڈ ڈے میل ورکرز اور آنگن واڑی مراکز میں تعینات ورکر و ہیلپر بھی سراپا احتجاج ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ان کے مطالبات سننے کیلئے بھی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ورکروں کے ہر ایک احتجاج کے وقت حکام کی طرف سے یہ یقین دہانیاں کی جاتی رہی ہیں کہ ان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں گے اور جاب پالیسی بھی وضع کی جائے گی لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ رواںبرس جنوری کے مہینے میں یہی یقین دہانیاں نیشنل ہیلتھ مشن کے ملازمین کو دی گئیں اور اسی طرح کی طفل تسلیاں نریگا ملازمین کو بھی احتجاجی دھرنے ختم کروانے کیلئے دی گئیں ۔اس سلسلے میں مطالبات کا جائزہ لیکر سفارشات پیش کرنے کیلئے سرکاری کمیٹیاں بھی تشکیل ہوئیں تاہم نہ ہی ان کی سفارشات کا کچھ پتہ چلااور نہ ہی مطالبات پورے ہوسکے۔باربا ر کی وعدہ خلافیوں سے مایوس ہوکر مہاتماگاندھی نریگا کے تحت کام کرنے والے ملازمین نے ایک بار پھر سے احتجاج شروع کردیاہے اور وہ پچھلے ایک ہفتے سے سراپااحتجاج ہیں۔ان ملازمین کاکہناہے کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے اور ان سےبرائے نام معاوضے پر بہت سارا کام لیاجارہاہے۔ان ملازمین میں سے بیشتر 2006میں نریگا کے ریاست میں متعارف ہونے کے وقت سے تعینات ہیں، جنہوں نے اپنی جوانی اس سکیم کو دے دی ہے اور انہیں دس دس بارہ بارہ سال خدمات انجام دینے کے بعد بھی یہ معلوم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔حالانکہ جنوری میں محکمہ کی طرف سے ان کے مطالبات کا جائزہ لیکر ان کے حل کیلئے سفارشات پیش کرنے کے مقصد سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو اپنی رپورٹ دو ماہ میں پیش کرناتھی مگر اس رپورٹ کا آج تک کچھ بھی پتہ نہیں چلا اور اب ملازمین کے دھرنے کے بیچ پچھلے ہفتے حکام کی طرف سے ایک اور کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئ ہےلیکن معلوم نہیں اس کمیٹی کا کیا حشر ہوگا اوراس کی رپورٹ بھی منظر عام پر آئے گی یا پھر یہ عمل بھی وقت گزاری ہی ثابت ہوگا۔نریگا ملازمین کی یہ شکایت بھی ہے ایس ای جی سی (سٹیٹ ایمپلائمنٹ گارنٹی کونسل )جسے اس سکیم میں فیصلہ سازی کے حوالے سے سب سے بڑا درجہ حاصل ہے ،کی میٹنگ کے دوران ہوئے فیصلوں پر بھی عمل درآمد نہیں کیاگیا اور محکمہ کی طرف سے بیشتر جز وقتی مطالبات کو منظوری دیئے جانے کے باوجود فائل ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئی ۔جس پریشانی سے نریگا ملازمین دوچار ہیں ،غالباًایسا ہی حال دیگر سکیموں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کابھی ہے۔سب سے زیادہ ظلم کاشکارمڈ ڈے میل ورکرز ہیں جنہیں ماہانہ صرف ایک ہزار روپے ملتاہے اوراس کی ادائیگی بھی کئی کئی ماہ بعد ہوتی ہے جبکہ کئی مقامات پر یہ رقم پوری نہیں بلکہ صرف نو سو روپے کے حساب سے دی جاتی ہے۔مرکزی معاونت والی سکیموں کو کامیابی سے چلانے والے ان ملازمین کے ساتھ انصاف کیاجاناچاہئے اور ریاستی حکومت کی طرف سے ان کے مستقبل کو بچانے کیلئے واضح پالیسی سامنے لائی جانی چاہئے ۔جس طرح سے حکومت نے حال ہی میں ساٹھ ہزار عارضی ملازمین اور نیشنل یوتھ کارپس کی مستقلی کا فیصلہ لیاہے اسی طرح سے مختلف سکیموں کے تحت کام کررہے ملازمین کیلئے بھی جاب پالیسی وضع کی جائے جو ملازمت کیلئے عمر کی آخری حد پار کرجانے کے باعث نہ تو کوئی دوسری سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ محنت مزدوری کرکے اپنے گھر بار کو چلاسکیں ۔