حمیرا فاروق
بے شک عورت دراصل ایک مرد اور اسکی نسل کی پہچان ہوتی ہے اور عورت کو بنانےاور بگاڑنے میں مرد کا ایک اہم رول ہوتا ہے ۔ وہ جس طرف ایک عورت کو لینا چا ہے، وہ ویسی ہی بن جاتی ہے ۔ عورت مرد کے سامنے چاہے کسی بھی روپ میں ہو، اگر اسکو اپنانے کے بجاے دھتکارا جائے تو وہ نہ صرف خود بگڑ جاتی ہے بلکہ ایک نسل اس کی شکار ہوجاتی ہے ۔ اس سب تباہی کا ذمہ دار بڑے حد تک سماج کا مرد ہی ہے جو اسکو اسکے حقوق سے ناآشنا رکھ کر اُسکے بے حیائی کی کاموں پہ روک ٹوک کے بجائے اس کی حوصلہ افضائی کرتا رہتا ہے، یا اگر اسکو کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کی اصلاح کرنے کے بجائے چھوڑ دیتا ہے۔دراصل اسکی اپنی غیرت مر چکی ہوتی ہے جو عورت کو بے باک بنا دیتی ہے ۔
جب مرد نیک ذات ہو، وہ عورت کو اپنی ضرورتوں کی حد تک ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ وہ اسکے حقوق بھی اُسے دیتا ہو تو عورت کبھی بہک نہیں سکتی ۔ ایک بے غیرت اور بدذات مرد کی وجہ سے عورت اپنی نسوانیت کھو کر طوائف بن جاتی ہے ، اور پھر وہی بے غیرت مرد اسپر اُنگلی اٹھاتا ہے کہ عورتوں نے معاشرہ بگاڈ دیا۔ اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا آخر ایسا کیوں ہوا؟جبکہ کوتاہیاں تو مردوں سے بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کو تو اللہ تعالیٰ نے قوام بنا دیا، جب مرد میں غیرت نہ رہی تو عورت نے بھی وفادار بننا بھی چھوڑ دیا اور غلط کاریاں عام ہونے لگیں۔ اگر مرد عورت کو دھتکارنے کے بجاے اپناتا تو ایک وفادار معاشرہ ،باحیا نسل وجود میں آتی ۔ ورنہ اگر ویسے ہی زمانہ جاہلیت کی طرح عورتوں کو ضرورت کی حد تک استعمال کیا جاتا رہے تو آئندہ نسل کا فیصلہ آپ خود کریں ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہیں کہ اگر ایک عورت غلط کام کررہی ہوگی تو اسکی وجہ سے چار مرد جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے، اس کا باپ ،بھائی،شوہر اور بیٹا ۔
اسلام میں مساوات ہے ۔ اگر عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا تو وہاں مرد کو غض بصر کا، اور جب عورت خود کو نہ چھپائے اور مرد کی آنکھیں خراب ہوجائے تو عورت کی عصمت کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ باوقار مرد کبھی اپنی عورت کو بغیر پردے کے گھر سے نکلنے نہیں دے گا ۔ یہ صرف ہوس پرست مردوں کا کام ہے ۔
اگر کوئی انسان دنیا کی تمام تر ڈگریاں حاصل کریں ، خود کو دنیا میں کامیاب یا عورت کا استحصال کرکے خود کو ذہین ترین شخص سمجھیں تو تب بھی وہ تعلیم یافتہ مرد نہیں کہلائے گا یا عورت ایسا کرےگی، وہ بھی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ جاہل تصور کی جائے گی ۔کیونکہ تعلیم جو ایک انسان سے تقاضہ کرتی ہے، جب وہ اسے محروم رہیں تو وہ ضائع ہے ۔ تعلیم یافتہ اور ذہین مرد اسکو کہا جاسکتا ہے جو غلظ اور ٹھیک ،حق اور ناحق میں تمیز کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو ۔ ورنہ اگر انسانیت اور خاص کر عورت کی نسوانیت کو نہ سمجھتا ہو تو حیوان سے بدتر تسلیم کیا جائے گا ۔ لہٰذا اس بات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ ایک عورت جو کہ ہمارا مستقبل اور ہمارے نسلوں کی نشانی ہیں اسکو نہ دھتکارا جائے اور نہ ہی اسکو کمتر سمجھ کر محض اپنی جنسی ضرورتوں تک محدود رکھا جائے بلکہ اسکو وہ سارے حقوق ملنے چاہئے جو اسکو ربّ العزت نے دیئے ہیں ۔ اگر اس کی ضروریات اُس کا اپنا مردپورا نہ کریں تو وہ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئےغلط اور ناجائز کاموں میں ملوث ہوکر معاشرے کو بگاڈ دیتی ہےاور نہ صرف بازار کی زینت بن جاتی ہے بلکہ بازاروں عورت بھی بن جاتی ہے۔
یہ حکم قرآن میں صرف انسانوں کے لیے ہےکہ وہ ایک دوسرے کو امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دیں، نہ کہ حیوان کو یہ حکم ملا ، حیوانات کو شرم وحیا سے عاری رکھا گیا ہے،وہ کہیں بھی اپنی خواہشات کی تکمیل بجا لاتے ہیں ۔ بخوبی خود غورو خوض کریں کہ اگر ہم انسانوں نے جانوروں جیسے اعمال کیے تو ہم اُن سے ابتر ہیں ۔ ایک عورت کو کھلونا سمجھ کر جہاں اور جیسے چاہے پیش آئیں، جس طرح چاہیں استعمال کریں تو اس سب کا ذمہ دار معاشرےکا مرد ہے، جو اب تک خواب غفلت میں محو ہوکر خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔ ہر مر اپنی خواتین کی اصلاح خودکرنے کو لازم جانیں ،ورنہ اللہ ربّ العزت کی پکڑ کے سامنے اُس کی کوئی اَکڑ نہیں چلے گی ۔
[email protected]