مغربی تہذیب جس کی طرف اس وقت دنیا للچاتی نظروں سے دیکھتی ہے اور اس کے حصول کی متمنی ہے جو ظاہر بین نگاہوں کو لُبھاتی ہے، اسے دیدہ بینا رکھنے والے خوب اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں کہ یہ معرکہ رو ح و بدن کے سوا کچھ بھی نہیں جس میں روح کی مکمل شکست اور آخر کار بدن ہی کیوں ہو جو اس کی نذر نہ ہو ۔کیوں کہ اس تہذیب نے انسان کو اصل فطرت سے ہٹاکر انسانیت پر رہنے نہ دیا اور اس طرح اسفل السافلین میں جا پہنچا دیا ۔اس تہذیب ِنو نے جو ظاہر میں بڑی زرق برق ہے ،روز مرہ زندگی میں جن مسائل کو جنم دیا ہے اس کا علم تو ہمیں اپنے مشاہدات کے علاوہ دیگر ذرائع مثلاً ریڈیو ، ٹی وی،میگزینز۔وہاں کے سیاح۔وہ لوگ جو وہاں کسی مد ت ٹھہرے ہیں،وغیرہ سے ہوتا ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو اس کے اثرات سے انسان کی نہ تو انفرادی اور نہ ہی اجتماعی زندگی متاثر ہوئے بناء رہ سکتی ہے۔اول تو جغرافیائی حدود پر ملکوں کی تقسیم نے انسانوں کو اللہ کی زمین پر حقوق مالکانہ جتانے کی جرأت دی جس کے نتیجے میں وطن پرستی ، قوم پروری ،رنگ ونسل کا امتیاز ،غریب قوموں سے امتیاز ی سلوک وغیرہ جیسے انسانیت سوز صفات نے راہ پالی،انسان جذبہ ایثار سے سرشار ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کچل دینے پر تلے ہوئے ہیں اور نتیجتاً خود غرضی اور عیاشی نے جنم لیا ۔ مغربی نظام جمہوریت جو برائے نام جمہوریت ہے اس کے مقلد حکمران جنہیں پارلی منٹ میں ممبر چُنا جاتا ہے ،اس قدر ہلکے اور خود غرض ہیں کہ معمولی وزارتیں دے کر انہیں خریدا جاسکتا ہے ،تھوڑے سے پیسوں کے ذریعے ان سے کوئی بھی کام لیا جاسکتا ہے۔یہ لوگ عوام سے کسی خاص پارٹی کے نام پر ووٹ حاصل کرکے سیٹ ملتے ہی اپنے ایمان کو بد لتے ہیں اور جدھر اپنے مفاد نظر آئیں وہیں کو د پڑتے ہیں ۔یہی حال ہمارے رہبروں کابھی ہے ،اب دیکھئے اقتصادیات میںمغرب کے خود ساختہ قوانین نے انسان کے قلب و ذہن پر پردہ ڈال کر خودغرض بننا سکھایا ہے۔اقتصادیات پر بنکوں اور سودی کاروبار کرنے والے اداروں کی مکمل اجارہ داری ہے اور سودخواری اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اس کے سوا اب کوئی اور اقتصادی عمل ممکن نہیں۔ خود بھارت کو آج اربوں روپیہ بطور سود کے عالمی اداروں کو دینا پڑتا ہے جس کا بوجھ ہر شخص پر بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑتا ہے،مغربی تہذیب کا تاریک تر پہلو جو کہ نسانی زندگی پر اس قدر اثر انداز ہے کہ نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں،اور وہ ہے اخلاق اور کردار پر حملہ،جس نے روحانی سکون چھین لیا ہے ۔بے حیائی ،عیش پرستی ،جوا بازی ،بے پردگی ،جوانوں کی بے راہ روی،خاندانی خلفشار وغیر عام ہوگئے ہیں۔انسان پھر اسی جاہلی دور کی طرف جارہا ہے جب کہ اسے تن ڈھانپنے کے لئے کچھ سوجھتا نہ تھا ، وہ تو غیر مہذب تھے ۔اب مہذب اور جاہل ،عرنانیت کو اس قدر فروغ دے دیتے ہیں کہ قریباً تیس چالیس سال قبل ایک انجمن جس کا خوب صورت نام Natural living societyرکھا گیا ہے ،کے صدر نے بیان دیا تھا کہ ان کی انجمن کے اب ساٹھ لاکھ ممبر ہیں اور 251ایسے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں عریانیت کی کھلی اجازت ہے ۔بے حیائی کی انتہا یہ کہ براہ راست اور بلیو فلمز کے کے ذریعہ بے حیائی کی تشہیر ہوتی ہے اور معصوم بچے تک ان حالات سے آگاہ ہیں جن سے کبھی بالغ بھی نا آشنا تھے،اور اس طرح ان کے اخلاق بچپن ہی سے بگڑ تے ہیں ۔خود غرضی اور زیادہ سے زیادہ کمانے کے لالچ نے خاندانی زندگی کو تتر بِتر کردیا ہے ۔ماں باپ اولاد کی شفقت و رحمت کے جذبات سے محروم اور اولاد ماں باپ کی عزت و احترام کے جذبات سے بے نیاز ہیں ۔مغرب کی نقالی نے ہمارے نوجوانوں میں پریشان کن اثرات ڈالے ہیں ،شراب خوری سے ہر سال ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ، بے شماردماغی امراض کے شکار ہوتے ہیں جوا بازی عام ہے،منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔یہی لوگ کیسے ہی گندے فیشن اپنالیں ہمارے جوان ان کی بے جھجک تقلید کرنے لگتے ہیں ،مغرب زدہ عورتیں اپنے آپ کو عریاں کرکے اپنی آبرو ریزی میں فخر محسوس کرتی ہیں ،اپنے جسم کی نمائش سے وہ جس پیاس کو بُجھانا چاہتی ہیں ،وہ نہیں جانتی ہیں کہ اس سے ان کی یہ آگ اور بھڑک اُٹھتی ہے اب تو پس ماندہ ممالک میں بھی تفریح گاہیں شاندار ہوٹل اور دیگر عیاشی کے اڈے چاروں طرف فرنگی تہذیب کی تصویر پیش کرتے ہیں۔بہر حال کیا کیا لکھا جائے کیا کیا کہا جائے اب اس خلیفتہ الارض کی زندگی جیسے خالق کائنات نے زمان و مکان کی قیود سے بالا تر دیکھ نا چاہا تھا ۔خود انسان کی کوتاہ نظری سے تلخ اور بد مزہ ہوگئی ہے اور دلوں سے راحت اور اطمینان رخصت ہوگیا ہے ۔اللہ کا نائب اپنے منصب سے مستعفی ہوکر اب درندوں کی زندگی گزارنے لگا ہے اور حیوان ناطق سے حیوان المطلق بنا چاہتا ہے ۔اللہ کرے اب مزید تنزل واقع نہ ہو،اور انسانیت لوٹ آئے۔اب وقت آیا ہے کہ ہماری نئی نسل کو اسلامی اصولوں پر کاربند رہ کر سائنس اور ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ فائدے اپناکر ایک ایسی تربیت کی بنیاد ڈالنی ہوگی جس میں مغربی تہذیب کے تاریک پہلوئوں کا قطعاًکوئی اثر نہ ہوگا ۔آدمی آدمیت سیکھے ، بے غرضی اور پیار و محبت سے زندگی گزارنا سیکھے،اپنے اخلاق اور کردار میں بلند سے بلند تر اقدار حاصل کرنے کی سعی کرے اور اپنی ضروریات زندگی بطریق احسن حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے کوشاں رہے تاکہ دلوں کا اطمینان لوٹ آئے اور زندگی ایسے گزرسکے جیسے زندگی گزارنے کا حق ہے۔