شب و روز کے ہنگاموں سے بے خبر وہ روز ہائے وے کے متصل پیٹرول پمپ پر بھیک مانگنے آتے تھے۔ وہ بچے کون تھے؟ کہاں رہتے تھے؟ یہ بعد میں پتہ چلے گا۔ ان خوبصورت بچوں کو دیکھ کر اکثر میرے دل میں طرح طرح کے خیالات اور سوالات اُبھرتے تھے۔
’’کتنے پھول اسی طرح مرجھا جاتے ہیں! بہار دیکھے بغیر وہ خزاں کا شکار ہوجاتے ہیں! ان معصوم ہاتھوں میں قلم ہونا چاہئے تھا! اِن معصوم بچوں کی یہ سکول جانے کی عمر تھی! شائد اسی لئے اُن کے چہروں پر ’کل‘ اُداس ہے! ایک طرف سرکار بچوں کی بہبودی کے بڑے بڑے دعوے کررہی ہے۔ دوسری طرف مشقت اطفال Child Labourاور بچوں پر ہورہے تشدد کا گراف روز بہ روز بڑھتا ہی جارہا ہے اور سرکاری دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں۔ حسرت میرے ہونٹوں پر دُعا بن کے آئی۔۔۔
’’یا اللہ! ان معصوم بچوں پر رحم فرما۔۔۔ یہ بکھر جائیں گے، پھر ان کوسمیٹنا مشکل ہوگا۔‘‘
ان بچوں کی عمر بالترتیب دس اور بارہ سال کی ہوئی ہوگی۔ شکل و صورت سے یہ ایک دوسرے کے بھائی بہن لگتے تھے۔ پیٹرول پمپ پر یہ بچے گاڑیوں میں بیٹھی سواریوں کے سامنے اپنے معصوم ہاتھ پھیلاتے تھے۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے وقت وہ کپکپاتے تھے! ان بچوں کو دیکھ کر دفعتاً مجھے اپنے بچے یاد آگئے۔ میں نے ان دونوں بچوں کو اپنے پاس بُلایا اور بولا۔
’’نام کیاہے تمہارا؟‘‘
’’دامنی‘‘ لڑکی نے فوراً جواب دیا۔
’’اور تمہارا؟‘‘
’’رمیش‘‘ لڑکے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’بنگال‘‘ دامنی بولی۔
’’بھیک کیوں مانگتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہم غریب لوگ ہیں۔‘‘ رمیش نے سہمتے ہوئے جواب دیا۔
میں نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور دونوں بچوں سے کہا۔
’’بیس بیس روپیہ رکھ لو۔‘‘
’’اور دس روپے!؟‘‘ دامنی نے تجسس سے پوچھا۔
’’یہ تمہارے قلم کے لئے‘‘
’’تھینک یو انکل‘‘ دامنی خوش ہوئی۔
’’اچھا! ایک بات آپ سے پوچھنی تھی‘‘۔ میں نے دونوں بچوں سے کہا۔
’’جی پوچھئے‘‘ رمیش بولا۔
’’ابھی کہاں رہتے ہو۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارا ڈیڑہ کہاں ہے؟‘‘
’’اُس پاس والے خیمے میں‘‘ دامنی نے خیمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
تمہارے ساتھ اور کون رہتا ہے؟‘‘
’’ہماری ماں‘‘ دونوں یک زبان ہوکر بولے۔
’’یار! تم تو بہت چالاک ہو!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہوں نا!‘‘ دامنی بڑے ہی انہماک سے بولی۔
’’اچھا! تمہارا باپ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ دو سال قبل ایکسی ڈنٹ میں مر گیا‘‘۔ رمیش نے سُست لہجے میں جواب دیا۔
’’تمہاری ماں بھی بھیک مانگتی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہ گتہ جمع کرتی ہے۔ روز صبح رکشا لے کر چلی جاتی ہے اور گلی گلی گتے جمع کرکے شام کو واپس آتی ہے۔‘‘ رمیش نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
’’اس کا مطلب ہے اُس خیمے میں تم تین لوگ رہتے ہو؟‘‘
’’چار۔۔۔ ایک دو تین اور چار‘‘ دامنی بولی۔
’’چار!؟ یار یہ چوتھا کہاں سے آیا۔ یہ کون ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
دامنی کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔
’’ایک مرد۔۔۔ وہ رات کو آتا ہے!!‘‘
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
موبائل نمبر؛9906534724