ارشاد علی ارشاد۔رام بن
اس دنیا میں کچھ لوگ انسانیت کی بقا کے لئے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں کہ مرنے کے با وجود لوگوں کے اذہان میں سدا کے لئے امر ہو جاتے ہیں ۔
آج ہم ایک ایسی ہی شخصیت کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو ضلع رام بن کےقدیم تحصیل بانہال کے علاقہ کھڑی آڑ پنچلہؔ کے دیار ِبے سروسامان کی اُفق پر ایک روشن ستارے کی مانند جلوہ افروز ہوئی اور اپنے علمی و عملی مکارم و محاسن سے خلقت بےنوا کے سر افگندہ کو سر بلند کردیا اور انہیں ظلمت کدہ کی تاریکیوں سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کردیا۔ یہ صاحب تدبیر و توقیر شخصیت کھڑی آڑپنچلہؔ کےمرحوم پیر غلام احمد مخدومی تھے، جنہوں نےاپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ علاقہ کھڑی کی تعمیر وترقی میں دن رات ایک کر کے صرف کر دیا ۔ مخدومی صاحب کا پورا نام غلام احمد شاہ تھا۔آپ کے والد خلیل شاہ کیلاش پورہ سرینگر سے تلاش معاش کے سلسلے میں گردش ایام کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے 1911ء میں علاقہ کھڑیؔ میں وارد ہوئے اور ترنہؔ تریگام میں استراحت کی سانس لیکر امامت کے فرایض انجام دینے لگے، بعد از آں ترنہؔ میں ہی شادی بھی کر لی اور سال 1919 ء میں انکا اکلوتا بیٹا غلام احمد شاہ یہیں پر تولد ہوا۔جنہوں نے سرینگر کے اورینٹل اسلامی سکول میںداخلہ کے کر منشی فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ 1948ء میں آپ کی شادی خانقاہ محلہ سرینگر کے ہمدانی خاندان میں ہوئی جبکہ آپکے والد مخدوم صاحب کے آستان عالیہ کے مجاور تھے۔ آپ نے اپنی اہلیہ کو اپنے ہمراہ ترنہؔ لایا ،جو تا حیات آپ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھی رہیں اور ترنہ میں ہی مقیم رہیں۔چنانچہ آپ ذات کے اعتبار سے شاہ تھے، اس لئے عوام میں اَمہ پیرؔ کے نام سے مو سوم ہو گئے لیکن بعد ازآں جب معلوم ہوا کہ آپ کے آباء حضرت سلطان العارفینؒ مخدوم صاحب کے آستان عالیہ کے مجاور تھے، تو آپ مخدومی کہلانے لگے اور یوں آپ اَمہ پیر سے پیر مخدومی مشہور ہو گئے۔
آپ نیک سیرت ، حلیم الطبع اور خوش مزاج قسم کے شخص تھے۔آپ مروت و معاطفت میں اپنے معاصریں میں ممتاز تھے۔ ہر حال میں شاکر قلبی اور فراکھ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ حاجت مندوں، محتاجوں ، یتیموں اور بیواوں کی کفالت اور مالی معاونت میں پیش پیش رہتے ۔آپ سراپا مہر و وفا کا ایک حسین پیکر تھے، میانہ قد کے ہوشیار اور سبک رفتار شخص تھے۔آپکی چھوٹی چھوٹی نیلگوں آنکھوں میں سدا شفقت اور مروت کے آثار رقصاں نظر آتے تھے۔ہمیشہ سادہ لباس زیب تن کرتے اور اکثر اوقات دیسی اون کے پٹو کا بنا ہوا گندمی رنگ کا اونی کوٹ ، ٹوپی اور کمیز شلوار پہنتے۔ چہرے پر سفید رنگ کی تقریباًایک مشت لمبی داڑھی تھی۔ آپ ہاتھ میں لاٹھی لئے درویشانہ چال اور نیاز و نیستی کے ساتھ گھر سے نکلتے اور راستے میں حسب معمول ہر راہ گزر سے خندہ پیشانی سے ملتے ۔آپ نے تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور لوگوں کے دلوں میں جگہ کرلی اور عوام الناس نے بھی آپکو والہانہ عزت اور احترام دیا اور آپکی سیادت و قیادت کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔در اصل یہ وہ زمانہ تھا جب علاقہ کھڑیؔ میں سیاسی،سماجی اور مذہبی قائدین کا فقدان تھا۔لوگ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ تھےاور بجلی ،پانی ، سڑک ،طبعی اور تعلیمی سہولیات جیسے بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ آپ انکے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کی حصولیابی کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ۔تعمیر مساجد سے آپکو ایک خصوصی لگاو ، انسیت اور رغبت تھی اور اس پر طرہ یہ کہ لوگوں سے مالی و جانی معاونت حاصل کرنے کا گُر بھی اللہ نے آپکی ذات میں ودیعت کر دیا تھا۔ آپ جہاں بھی جاتے تو اپنی شیریں بیانی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے۔آپ اکثر اوقات فارسی زبان کے معنی خیز اشعار کا استعمال کر کے سامعین کا لہو گرماتے اور انہیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتے۔ اپنےمنفرد لب ولہجہ اور رقعت آمیز سحر بیانی سے عوام وخواص کو مسحور اور مسخر کر دیتے تھے۔ آپکے کلام میں تاثیر اور تاثر دونوں خوبیاں پائی جاتی تھیں کہ مرد حضرات اپنا مال اور زمین بھیج کر معاونت کو سعادت سمجھتے اور مستورات اپنا قیمتی زیور تک بصدق دل پیش کرنے کو بیقرار ہو جاتیں ۔آپ حلیمی، مروت، شجاعت ، خلوص اور انسان دوستی کے سبب لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے تھے ،یہاں تک کہ مرد و زن و پیر وجواں بلکہ طفل نادان تک بھی آپکو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور آپکی تعریف و توصیف کرتےتھے۔
خوش نصیبی سے اس ناچیز کو بھی آپ کی صحبت کا شرف نصیب ہوا ہے اور کئ مواقع پر آپ سے ملاقات کرنے اور آپکے ملفوظات سننے کا موقع ملا ہے۔آپ جب کبھی مہوؔ آتے تو بندہ کے برادر اکبر مرحوم مولوی محمد شعبان صاحب کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں علمی مباحث میں مشغول ہوجاتےاور سیاسی وسماجی پسماندگی کی باتیں بھی زیر بحث لاتے اور یوں ہمیں بھی ان صاحبان فہم و فراست کے افکار و نظریات سے مستفید ہونے کا موقعہ ملتا۔ آج بھی جب کبھی ان علمی مجالس کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ زما نہ پورے آب و تاب مع احوال کے یاد آتا ہے۔ دو علاقوں کی دو بے نظیر شخصیات کا ملن ! ، جن کے تدبر ،جنکی وجاہت ،جنکی فصاحت اور بلاغت جن کے علمی اور روحانی کمالات جنکی پر خلوص سیاسی و سماجی خدمات کی نظیر نہیں ملتی ۔
عوام میں آپ پہلے سے ہی ایک با صلاحیت علمی اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت کے طور پر متعارف تھے کیونکہ سیاسی میدان میں آپ کے مراسم بخشی غلام محمد اور میر قاسم سے لیکر دیوی داس ٹھاکر اور شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ مسلسل چلے آ رہے تھے۔ آپ اپنی فہم و فراست اور حکمت و ذکاوت کو بروے کار لا کر علاقہ کے لوگوں کو خواب غفلت سے جگاتے اور انہیں پند و نصایح کے ذریعہ اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے سر بکف رہنے کی تلقین کرتے ۔آپ نے 78 برس کی عمر میں سال 1997 عیسوی میں وفات پائی اورسیرن کھڑی کے مقام پر سپرد خاک کئے گئے۔
[email protected]