بیسویں صدی کے آغاز میں جب پورا برصغیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ،علاقہ بیروہ لاعلمی اور جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔انسانی ،مذہبی اور اخلاقی قدریںچوپٹ تھیں ،لوگ کمزوروں سے ہمدردی ، باہمی تعاون ،خوش معاملگی ،سلیقہ مندی ،صفائی و نظافت کے بنیادی اصولوں تک سے نابلد تھے ۔ ایک طرف استحصالی قوتیں غریبوں کا خون چوس رہی تھیں ، دوسری طرف فضول خرچیوں ،نمود و نمائش اور بے جا رسومات کے طوق و سلاسل نے ان کی معاشرت و معیشت کو برباد کردیا تھا ۔علاقہ بیروہ میں ہر طرف غریبی،جہالت اور پسماندگی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ تیرگی کے اس ماحول میں مولانا سید علی شاہ نے ۳۰ نومبر ۱۹۱۴ ء میں سدی پورہ بیروہ میں جنم لیا ،ہوش سنبھالتے ہی اپنے ماموں کے ساتھ امرتسر چلا گئے اور وہاں حصولِ علم میں مشغول ہوگئے ۔تحصیل علم سے فارغ ہوکر جب اپنے گھر لوٹے تو علاقے کی ناخواندگی اور پسماندگی اُن سے دیکھی نہ گئی ۔ ان کے دل میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ،عزم و ہمت ، صبر و استقامت ،بردباری ، معاملہ فہمی اوردوراندیشی ان کے کردار کے خاص جوہر تھے۔وہ دن و رات سوچتے رہے کہ علاقے سے پسماندگی کو کیسے دور کیا جائے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے علم کی شمع روشن کرنے سے ہی تاریکی کافور ہوسکتی ہے۔اس لئے انہوں نے ۱۹۳۴ ء میں سونہ پاہ بیروہ میں مظہر الحق ہائی سکول کی بنیاد رکھی۔حق و صداقت سے ان کی محبت توفطری تھی ،اس لئے اپنے سکول کا نام مظہر الحق رکھا ۔ اُس زمانے میں سکول قائم کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔کاغذ اور سیاہی لانے کے لئے سرینگر پیدل جانا پڑتا تھا اور ڈوگرہ حکومت سے سکول کی منظوری حاصل کرنا بھی مشکل ترین کام تھا مگر مولانا سید علی شاہ صابر اور پُر عزم شخصیت کے حامل تھے ۔اس لئے مشکلات اُن کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے ۔انہوں نے سونہ پاہ بیروہ میں سکول چالو کیا ۔باپ کے ترکہ سے ایک کھٹار وراثت میں ملی تھی ،اس کی لکڑی سے اسکول کا پہلا فرنیچر بنایا ،دن رات سکول کو ترقی دینے کے لئے سخت جانی سے محنت کرتے رہے۔سونہ پاہ میں اسکول کے لئے جگہ کی کمی محسوس ہوئی تو اپنے ماموں سے سدی پورہ بیروہ میں مکان حاصل کیا جو انہوں نے اپنے بھانجے کو ہبہ کردیا اور اسی میں سکول منتقل کیا گیا ۔۱۹۴۳ ء میں پہلی بار اس اسکول سے طلباء میٹرک پاس کرکے نکلے ۔اس زمانے میں مغربی کشمیر میں کوئی دوسرا ہائی اسکول نہ تھا ۔ٹنگمرگ ،پٹن ،بڈگام ،خانصاحب اور دوسرے دورا دراز علاقوں سے طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس اسکول میں پڑھنے آتے جاتے تھے ۔آج تک ہزاروں لوگ اس اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں جو اس وقت زندگی کے مختلف شعبوں میں برسر روزگار ہیں اوراعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔اس وقت بھی یہ سکول بلا امتیاز مذہب و ملت معیاری تعلیم فراہم کررہا ہے اور اس کا شمار کشمیر کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے ۔پڑھائی لکھائی میںاچھے نتائج دکھاتا ہے ۔یہ سکول اس وقت ان کے فرزند مولانا سید عبدالروف کی سرپرستی میں چل رہا ہے ۔اس سکول نے بہت سارے ڈاکٹر انجینئر ،کے اے ایس آفیسر ، سیاسی اور سماجی کارکن، ادیب اور دانشور پیدا کئے ہیں۔
مولانا سید علی شاہ ایک بلند پایہ مقرر تھے، ہر جمعہ کو جامع مسجد بیروہ میں خطبہ دیتے تھے ۔امن ،اخوت ،اتحاد،خدمت ِخلق اور ہمدردی پر زور دیتے تھے ۔اچھے اخلاق کی تلقین فرماتے تھے ،نیکیوں کو فروغ دیتے اور حُبِ رسول ؐکو دین کی بنیاد بتاتے۔فرقہ بندی ،تنگ نظری ،انتہا پسندی کو ناپسند فرماتے ۔فروعات کو چھوڑ کر دین کی بنیادی باتوںپر زور دیتے ،اسلام کے پیغام ِمحبت کو عام کرتے۔علاقہ میں شادی بیاہ اور دوسری سماجی تقریبات کے موقع پر لوگ فضول خرچی ،نام و نمود ،لین دین ،جہیز جیسے بدعات کا شکار تھے ، لیکن مولانا نے ان بدعات کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی ۔اس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی علاقہ میں اکثر شادیاں سادگی سے انجام دی جاتی ہیں۔مولانا سید علی شاہ نے ماحول کی آلودگی ،منشیات کے استعمال ،درختوںکی بے دریغ کٹائی ،بدعنوانی اور دوسری سماجی برائیوں کے نقصانات سے لوگوں کو ہمیشہ آگاہ کیا۔
بیروہ تحصیل ہید کوراٹر کا درجہ دلوانے ،رسل و رسائل کی سہولیات فراہم کروانے ،تعمیر و ترقی کی سکیموں کی عمل آوری اور علاقے کے عوام کی پسماندگی اور مشکلات کو دور کروانے کے تئیں انہوں نے اہم رول ادا کیا ۔ مولانا سید علی شاہ نے ۱۹۵۱ ء میں انجمن مظہر الحق کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا ۔اس ٹرسٹ کے ذریعہ بیروہ کی عظیم الشان مسجد تعمیر کی ،غسل خانے اور پل تعمیر کئے ،غریبوں ،معذور افراد ،مصیبت زدوں، بیواوؤں اور یتیموں کی حتی الامکان مدد کی۔لوگوں کو مقدمہ بازیوں سے بچانے کے لئے مولانا اپنے یہاں لوگوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ کرتے تھے اور ان کو انصاف فراہم دلاتے تھے ،لوگ ان کے فیصلے خوش اسلوبی سے تسلیم کرتے تھے۔مولانامتقی اور پرہیز گار تھے ، نماز تہجد کبھی نہ چھوڑتے ۔اپنے وقت کا ایک حصہ ذکر ودعا کے لئے مخصوص رکھا تھا ۔عبادت اور ریاضت شوق و ذوق سے کرتے ۔ہر ایک پر مہربان رہتے اور لوگوں کا کام انجام دینے میں مشقت برداشت کرتے تھے۔برد باری ،توکل ،تسلیم و رضا ،تقویٰ استغنیٰ ،پاکبازی ،تدبر ،فہم وفراست اس اہم شخصیت کے کلیدی اوصاف تھے۔خدا اور رسول ؐکی محبت اور بندگان ِ خداسے مہرو ماہ سرشار تھے ۔علاقہ بیروہ میں مذہبی بھائی چارہ قائم کرنے ،اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے میں مولانا سید علی شاہ نے نمایاں رول ادا کیا ۔اس لئے تمام مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کا احترام کرتے ۔مارچ ۱۹۷۹ ء میں جب ان کی وفات ہوئی تو ہزاروں کی تعداد میںہندو ،مسلم سکھ ،شیعہ ،سنیوںنے ان کو پُر نم آنکھوں سے الوداع کیا ۔پورے کشمیر میں ان کی وفات پر اظہار غم کیا گیا۔میرواعظ کشمیر مولانا فاروق صاحب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔مذہبی ، فلاحی تعلیمی اور سماجی کارناموں کے نسبت سے لوگ انہیں سرسید ثانی ،چراغِ بیروہ اور مصلح ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
فون 9622785290