حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی رحمتہ اللّٰہ علیہ کے جنازے اور مٹی سے ابھی کچھ دیر پہلے گھر پہنچا ہوں۔ہمارے قافلے میں ضلع ارریہ کی بڑی بڑی شخصیات شریک جنازہ تھیں۔جنازہ عالم رُبانی حضرت مولانا انوار عالم صاحب نے پڑھائی،حضرت والا کے جنازے میں شریک ان کے شیدائی اور چاہنے والے انسانی سروں کا سمندر امڈ پڑا تھا،ہمیں ٹریفک کے پیش نظر تقریباً چار کلومیٹر پیدل چلنا پڑا،نظر جدھراٹھتی مردانہ وار قافلے کا قافلہ جنازہ میں شرکت کے لئے رواں دواں تھا،ہجوم کی وجہ سے جنازے کو کندھا تو نہ دے سکا، البتہ ہاتھ کا سہارا لگا کر ہی قلب ِمضطر کو سکون دے دیا۔بحمد اللہ لاکھوں کے مجمع میں نمازِ جنازہ کے بعد تین لپ مٹی دینے کی سنت بھی ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا۔مٹی دینے کے بعد تین چیزوں نے حضرت والا کی عقیدت مندی میں مزید اضافہ کردیا ـ:
۱؍ حضرت والا کا گھر۔۲؍ حضرت والا کی مسجد۔۳؍ حضرت والا کا مدرسہ۔
جنازے کے بعد حضرت مولانا کے گھر سے متصل مسجدمیں عصر کی نماز ادا کی تومعلوم ہوا کہ یہ صرف نماز پنج گانہ کے لئے مسجد نہیں تھی بلکہ حسب موقع شب بیداری اور اصلاحی نسبت کے لئے اسے حضرت والا کے خانقاہ کی حیثیت بھی حاصل تھی۔مغرب کے وقت حضرت کے مدرسہ دارالعلوم صفہ پہنچا جو ان کے گھر سے متصل ہے اور وہاں کے ناظم حافظ محمد عمر صاحب سے ملاقات کی تو مدرسہ کے معصوم بچوں نے گھیر لیا،چھوٹے چھوٹے بچوں نے کہا کہ مولانا صاحب!حضرت کل مغرب بعد یہاں آئے تھے،ہم سبھوں کو بٹھا کر نصیحت کرنے لگے اور عشا ء سے پہلے جلسے میں جانے لگے تو ہم بچوں سے مصافحہ کیا اور ناظم صاحب سے کہا کہ ہم سے جو غلطی ہوئی ہے، آپ معاف کر دیجئے۔ناظم صاحب سے میں نے بات کی تو بہت ساری باتوں میں سے ایک بات یہ فرمایاکہ میں نے حضرت سے آج رات بہت ضد کیا کہ حضرت آپ سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ایک وقت کا کھانا ہم لوگوں کے ساتھ کھا لیجئے تو آپ ہنس کر ٹال دیتے ہیں مگر آج تو کھانا ہوگا۔۔۔تواس پر حضرت نے فرمایا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ میرا گھر سامنے ہو اور میں مدرسہ کا کھانا کھالوں!
مجھے اشتیاق ہوا کہ پھر کبھی یہاں آنے کا موقع ملے نہ ملے حضرت رحمہ اللّٰہ علیہ کا گھر بھی دیکھ لینا چاہیے۔اچانک میری نظر رفیق مکرم مفتی انعام الباری صاحب قاسمی پر پڑی،میں اُن کے ساتھ اندر کیا گیا کہ اس بندہ ٔدرویش اور فنا فی اللہ MP کی سادگی و قناعت پسندی دیکھ کر آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔پکے مکان کے صحن میں چھپر کا چولہا گھر،چولہے گھر کے اندر مکئی کے چھلکوں کا جلاون،غسل خانے کی طرف گیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک کنارے میں ایک بوسیدہ بیت الخلاء،بیت الخلاء کے سامنے دوتین پرانی بالٹی،پلاسٹک کے ایک دو لوٹے،اور وہیں دوسرے کونے میں چاول اور گیہوں کوٹنے والی زمانہ قدیم کی اوکھلی اور لکڑی اور مٹی سے بنے ہوئے ایک دو سامانِ زندگی۔ یقین کریں،یہ موجودہ وقت کے ایک MP کے گھر کے استعمال کی چیزیں ہیں۔ میرے سامنے ہزاروں لوگ اپنے اپنے موبائل سے مذکورہ بالا ایک ایک سامانِ زندگی کا فوٹو لے رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے ٹپک ٹپک کر گر رہے تھے۔میں راستہ بھر سوچ رہا تھا کہ احادیث کی کتابوں میں حضرات صحابہ کرامؓ کے طرزِ زندگی اور اکابرین کی سادگی و قناعت پسندی کے جو ناقابل یقین واقعات اپنے اساتذہ کرام سے ہم نے پڑھے یا سنے ہیں،لگتا ہے کہ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی رحمہ اللّٰہ علیہ اپنی ذاتی زندگی میں اسی کی عملی تصویر تھے۔اسی لئے راستہ میں واپسی پر پیدل چلتے ہوئے ایک بدو نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب!یہ بھیڑMP صاحب کے جنازے کی نہیں ہے بلکہ ایک درویش اور ولی کامل کے جنازے کی ہے۔حضرت والا سے بیسیوں اجلاس میںملاقات ہوئی اور جب بھی ملتے اپنی پیاری مسکراہٹ سے دل جیت لیتے تھے اور ہمیشہ دعائیں دیتے ہوئے فرماتے:بہت خوب،بہت خوب۔اب اس دنیا میں حضرت سے کبھی ملاقات نہ ہوگی۔خدا آخرت میں ملا دے۔ان سے بعید نہیں ہے ؎
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے