۔ 11فروری 1984ء تاریخ کشمیر کا وہ عظیم دن ہے جب قوم کشمیر کے ایک عظیم حریت پسندقائد محمد مقبول بٹ نے تختہ ٔ دار کو چوم کر اپنے بلند عزائم و استقلال کو جلا بخشتے ہوئےقومی آزادی کے لئے قربانی پیش کی ۔مقبول بٹ مرحوم قومی آزادی کا تصور پیش کرنے والی وہ ہستی تھے جس نے نے تن تنہا دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کی کشمیر پالیسیوں کو للکارا ،اور منقسم ریاست جموں و کشمیر کو آزاد وخود مختار بنانے کا خواب دیکھا ۔انہوں نے سب سے پہلے جموں وکشمیر محاذرائے شماری نامی تنظیم میں شمولیت کی، بعد ازاں جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد ڈالی ۔اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا محاذ کھولا۔وہ خودمختار جموں وکشمیر کے نظریاتی حامی تھے اور منقسم ریاست میںہندوستانی وپاکستانی تسلط کو یکسان طور اپنے خواب کی تعبیر میں رکاوٹ سمجھتے تھے ،اسی لئے وہ آر پار جیل خانوں کے زینت بنے۔ وہ بلند پایہ مخلص اور محب وطن قائد تھے جنہوں نے ذاتی مفادات کو شعور کی گہرائی سے قربان کرکے قومی مفادات کی خاطر اپنی پوری زندگی نچھاور کردی ۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ حقیقی قائد کشمیر تھے اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ کشمیر کا قائد نہیں ہو سکتے جنہوں نے اقتدار اور ذاتی مفادات کی خاطر بھارت کو گلے لگایا اورظلم کی پذیرائی میں اپنے کندھے وقت کے جابروں کو پیش کئے ۔ مرحوم مقبول صاحب کا لائف لانگ اصول تھا ’’غلامی کی ذلتوں پر چپ چاپ سادھ لینا سب سے بڑی حماقت ہے ‘‘
مقبول بٹ چاہتے تھے کہ 1947ئ کو کشمیر پر اپنا تسلط جمانے والے اس وطن پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ کشمیری قوم ایک عظیم تاریخ کی مالک ہے ،اس کا اپنا منفرد تہذیب و تمدن ہے اور اس قوم کو اپنی قومی حیثیت سے بندوق کی نوک پر دستبردار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ قومی آزادی کو ہی مسئلہ کشمیر کا واحد اور بہترین حل سمجھتے تھے۔ اس لئےوہ قوتیں جو کشمیر کے دونوں حصوں پر حکمران ہیں، وہ مرحوم بٹ صاحب کے بے لاگ سیاسی خیالات اور حریتِ فکر کے تصور ات پر تلملا اٹھیں اور انتقام گیری کے تحت انہیں تنگ و تار کال کوٹھریوںمیں مقید کر کے متعدد کیسوں میں پھانس دیا تاکہ اس آوازپر سختیوں کے پہرے بٹھاکر دبایاجائے مگر یہ قوتیں اس آواز کی پہنچ اور مقبولیت کو روک نہ سکیں ۔ مرحوم کا طرہ ٔ امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان سے ہمدردی اور بھارت سے دشمنی یا پاکستان سے دشمنی اور بھارت سے دوستی جیسی متضاد پالیسی کو اختیار نہیں کیا بلکہ ان بکاؤ چیزوں سے بالاتر ہوکر بغیر کس لاگ لپٹی کے دنیا کو بتایا کہ تنازعہ کشمیر کا اصل حل یہ ہے کہ اہل کشمیر کو ایک آزاد وخود مختار مملکت تسلیم کیا جائے۔ اس حق بیانی کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی اور 11؍فروری 1984 کو تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے قوم کشمیر کی اس حقیقی آواز کو دبانے کے لئے مقبول صاحب کو دار ورسن پر چڑھا یاگیا مگرا ن کی آواز نے سیاسی معنی میں افلاک ِ وطن میں اتنی اونچی اُڑان بھر لی کہ مرحوم ناقابل شکست شخصیت بن گئے۔ واقعی تہاڑ جیل کے خاک میں مدفون کشمیر کا یہ بے بدل قائد حیاتِ جاوداں پاگیا۔ یہ اسی امرکا اظہار ہے کہ آج کی تاریخ میں وطن کے طول وعرض میں لاتعداد مقبول جدوجہد کے میدان میں بیش قیمت قربانیاں دے رہے ہیں ۔ قوم مرحوم مقبول صاحب کے عزم و و استقلال کو سلام پیش کرتی ہے ۔
رابطہ : لاسی پورہ ۔ کھاگ بڈگام
موبائل 918491866634