مرحوم غلام مصطفیٰ شاہین اب مرحوم ومغفور ہو چکے ہیں ۔ کہنے کو وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ، لیکن وہ زندہ ہیں کیونکہ شاہین صاحب نام ہے فکرجلیل، حکمت ِروشن ، بلند نگاہی ، بصیرت و شجاعت اور قلب و روح کا گوشہ گوشہ صالحیت سے منور کرنے والی اُس تقویٰ شعار ہستی کا جواللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آقائے نامدار ؐ کی اتباع میں عارفانہ و عاشقانہ زندگی کی برکات سے مالا مال تھی۔ مرحوم تادمِ زیست فکری ، علمی تعلیمی،تدریسی اوراصلاحی میدان میں سیمابی تڑپ کے ساتھ اپنی خدماتِ جلیلہ انجام دیتے رہے۔ خداداد صلاحیتوں کے مالک اس رُجل عظیم پر دینی و دنیوی علوم کی درس و تدریس کی دُھن ہمہ وقت انہیں بے چین رکھتی تھی۔ راقم نے جونہی ارضِ کشمیر کے اس عظیم الشان اُستاد، قلم کار ،داعی ، دانشور اور سماجی خد مت گار کے انتقالِ پر ملال کی خبر سنی تو بے ساختہ زبان پر اناللہ وان الیہ راجعون کی آیت مبارکہ نکلی اورآنکھوں کو اشک اشک کر گئی۔ سکتے کے عالم میں محسوس ہوا جیسے محبتوں اور خدمتوں کی کئی دیواریں یک بہ یک گرنے کا شورِ محشر دل ہی دل اُٹھ رہاہے اور آنسوؤں کاسیلاب غم و الم کو دوچند کررہاہے۔
دین خداوندی کے سچے دوست غلام مصطفیٰ شاہین صاحب کس خوش نصیب و سعادت مند ماں باپ کی اولاد تھے، کس با برکت گھرانے کے چشم و چراغ تھے، کس باغ کے گلِ سرسبد تھے ، وہ سب ان کی کتاب ِزندگی کے چمکتے اوراق ہیں ۔ دعاہے کہ اللہ ان کا ہر نیک عمل توشہ ٔ آخرت کی شکل میں قبول فرمائے اور جہاں کہیں بشریت کے زیر اثر اُن سے سہو وخطا ہوئے ہوں ،انہیں معاف فرمائے۔ آمین ۔ مرحوم شاہین صاحب خالص توحید کے گلدستہ سے نامہ اعمال سجاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں۔ عمر رفتہ کو پیچھے پلٹ کر دیکھے تو اندازہ ہوگا کہ کتنے ہی روشن ستارے ہیں جو اپنی منزل میں ڈوب کر فنا ہو گئے ۔ یہی قانونِ قدرت ہے کہ دنیا میں اپنے حصے کاکام مکمل کرکے ہر کوئی واصل بہ حق ہو جاتا ہے۔ اسی قانون قدرت کے تحت شاہین صاحب نے بھی آوازِ دوست پر لبیک کہہ کر ابدی سفر شروع کیا۔ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ ہر شئے فنا ہونے والی ہے اوربقا ء صرف ربِ ذلجلال کے شایانِ شان ہے۔ بہر کیف مرحوم شاہین صاحب اُن نابغہ روزگار شخصیات کے قبیل میں سے ایک تھے جن کے روز و شب پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں ہوتی ہیں ، جن کے دلِ بے نیاز ہر دو جہاں سے غنی ہوتے ہیں، جو پاک دل و پاک باز ہوتے ہیں، جن کی زندگی حرص و ہوس سے عاری ہوتی ہے، جن کی بیاضِ حیات داستانِ حرم کی طرح غریب و سادہ ہوتی ہے، جن کی اُمیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں، جو منزل اسلام کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو پھر سووزیاں کے جمع تفریق سے بالاتر ہوکر زندگی کی آخری سانس تک کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے ، انہیں نہ خار زاروں کی مسافتیں ڈراتی ہیں اور نہ سفر کی صعو بتوں کے سامنے وہ ہمت ہاربیٹھتے ہیں ، انہیں حق کی راہ میں مشکلات کی چوٹیاں سر کرنے اور قربانیاں پیش کر نے میں کبھی بھی پس وپیش نہیں ہوتا۔ مرحوم شاہین صاب کی کتاب زندگی کی ورق گردانی کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے ہاں بے ننگ و نام سیاست اور جامد مذہبیت سے دامن بچاکر اپنے کام میں کہیں مصروف کار ہیں۔ اُنہیں اپنے رقیبوں کے دل جیتنے کا فن بھی خوب آتا تھا۔ وہ بیک وقت مرددرویش ، اُجلا ذہن ، ہموار سوچ ، شیریں گفتگو، من موہنے کردار ، شرافت اور ندامت کے مجسم ہی نہ تھے بلکہ صاف گو ، مخلص و بے ریا اوربے لوث انسان تھے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کا چلتا پھرتا یہ شاہین ہر طبقۂ ملت میں یکسوئی اور اتحاد کے لئے کمر بستہ ہی نہیں بلکہ مضطرب رہتے تھے۔ آج کل چونکہ مسلکی و مشربی تضادات اور ترجیحات نے ملت کا شیرازہ منتشر کر کے رکھ دیا ہے مگر اس دردناک صورت حال میں مرحوم کبھی بھی اپنے داعیانہ و دانشورانہ امتیازات سے دستبردار نہ ہوئے ۔مجھے اعتراف ہے کہ مرحوم شاہین صاحب کی دلآویز اور تعمیری شخصیت کے خدوحال کو الفاظ کے جامے میں ڈھالنا میرے بس کا روگ نہیںاور میں اپنی علمی بے بضاعتی اور سخن کی تنگ دامنی کے باعث اس درویش خدامست کی زندگی کا احاطہ کر نے سے قاصر ہوں مگریہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ مرحوم شاہین صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ سال 1976ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم فل (M. Phil) کی ڈگری حاصل کر کے اس مردِ آہن نے ذاتی مفادات کو یکسر لات مار ی اور ضلع اسلام آباد میں اپنے بہت سارے ہم خیال و پُر خلوص مردان ِ کار کو خدمت اسلامی کے مرکزی پروگرام کے تحت جمع کیا تاکہ ملت اسلامیہ کو پھر سے اپنے کھوئے مقام اور عہدزریں کا سبق یاد دلائیں ۔جن اصحاب نے ان کے شانے سے شانہ ملاکر یہ جان جھوکم والا کام سرانجام دینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اُن میں خاص الخاص مرحوم و مغفوپروفیسر عبدالغنی خان صاحب قابل ذکر ہیں ۔ان کے ساتھ مل کر موصوف اسلامک اسٹیڈی سرکل کے قافلے میں شامل ہوئے اور اپنی شاہینی اُڑان شروع کی۔ 1980ء میں اِن ہی کی مخلصانہ کاوشوں سے ضلع اسلام آباد میں ایک تعلیمی ادارہ اقبال میموریل انسٹی چیوٹ کے نام سے معرض وجود میں آیا جس نے تعلیمی محاذ پر اپنے روشن نقوش ثبت کر کے مسلم طلبہ وطالبات کو زندگی کے مختلف شعبوں میں مثالی افرادی قوت میں بدل دیا۔ اس اسکول کے روح رواںمرحوم شاہین صاحب تھے جہاں بہ حیثیت پرنسپل آپ نے اپنی صلاحیتوںاور قابلیتوں کا لوہا منوایا ۔مرحوم نے اس تعلیمی ادارے کو ایک ماڈل اسکول بنانے کے لئے جو محنتیں اور کا وشیں کیں وہ قابل تعریف بھی ہیں اور لائق تقلید بھی۔ آپ نے کبھی منتظم اعلیٰ اور کبھی پرنسپل کی حیثیت سے یہاں اپنی ذمہ داریاں اَحسن طریقے سے نبھائیں۔ مرحوم شاہین صاحب کی ادارہ کے ساتھ اس قدر والہانہ عقیدت تھی کہ انسٹی چیوٹ کی مقصدیت، عظمت اور تقدس کو اپنا مقصد ِحیات بنایا ،اسے قابل ِفخر سرمایہ تصور کر کے اپنی عزیز جوانی بلکہ اپنے حال و مستقبل کو ادارے کی پراپرجائی پر نچھاور کر دیا ۔ اپنے مخصوص شعبہ میں سند یافتہ اور تربیت یافتہ ہونے کے ناطے ابتداء سے دنیوی ترقی و خوشحالی کے جتنے بھی سنہری مواقع مرحوم شاہین صاحب کے قدم چومنے آئے، مرحوم نے نہ صرف اُن سب کو ٹھکرادیا بلکہ نا مساعد حالات میں بھی مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے پورے عزم و استقلال سے ادارے کو آگے لے جانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مرحوم شاہین صاحب نے ادارہ کی خاطر دنیوی عیش وعشرت اور شان و شوکت پر فقیرانہ زندگی اور سادہ بسر اوقات کو ترجیح دے کر کفایت شعاری اور سادگی کاخرقہ زیب تن کیا۔
مرحوم شاہین صاحب ایک بہترین منتظم اور بہترین اُستاد تھے،ان کے اندر فہم و فراست ، صبر و رضا، تشکر ،ہمت و استقلال ، جذبۂ محنت ، پیار شفقت، علم و حلم ، دیانت و امانت ، صداقت شعاری ، کردار حسنہ جیسے اوصاف بدرجہ ٔاتم موجودتھے نیزمرحوم اعتماد و انکساری ، فرض شناسی، وقت کی پابندی، نظم وضبط اورنرمی و شائستگی جیسے اوصافِ حمیدہ کے سرتاپا مالک تھے۔ مرحوم کا فرزندانِ ملت پر یہ بڑا قرضہ اور احسان ہے کہ ان کی محنت شاقہ اور ایثار کے زیر سایہ بڑے بڑے ادیبوں، شعرا، مورخیں، فلسفیوں، ڈاکٹروں، انجیٔنروں، سائنس دانوں اور صنعت کاروںکی تعلیم وتربیت ہوئی۔آج ان کے طلبہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ان کی تعلیمی کارگردگی و خدمات کا فیض اٹھارہے ہیں ؎
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
س کے صنعت ہے روح انسانی
مرحوم شاہین صاحب اب دارلفناء سے دارالبقا کو کوچ کر کے عارضی زندگی کی بہاروں اور گلیاروں سے منہ موڑ کر دائمی بہار اور سدا بہارخوشبوں کے گلستان میں نشست کر گئے ہیں۔ ایسے پاک نفوس کی تسلیت کے لئے قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے:’’ اے نفس مطمٔنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا شادماں اور با مراد ‘‘۔ مرحوم شاہین صاحب نے ضرور آنکھیں موند لی ہیں ، قبر کے خاک دان میں آپ محو آرام ہیں، مگر اپنے باقیات صالحات کی شکل میں وہ زندہ وپائندہ ہیں ، اپنے کردار و گفتار ، تحریرات، اونچے خیالات اور ملت کی عزت و آبرو کے لئے اَنتھک و بے ریا کاوشوں کی صورت میں وہ ہمیشہ جویان ِ علم کی آبیاری کر تے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم شاہین صاحب کے نیک اعمال کو شرفِ قبولیت بخشے اور ان کی خطائیں معاف فرمائے ۔( آمین)
9086441774