ڈاکٹر تجمل بلہ پوری
جب کبھی کشمیر کی صوفی روایت، دینی شعور اور موسیقی کے دریا کا ذکر ہوتا ہے، تو مرحوم غلام محی الدین بلپوری کا نام ایک قندیل کی مانند روشن ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت ایک عالمِ دین، قوال، نعت خواں، اردو و فارسی غزل گائک اور صوفی مفکر تھے، جنہوں نے نہ صرف فن کو عبادت کا درجہ دیا بلکہ دین کو فن کی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا۔ وہ 1926 میں ضلع شوپیاں کے گاؤں بلپورہ میں پیدا ہوئے اور 27مئی 1997 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ بلپوری صاحب کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم قرآن، حدیث اور فقہ پر مشتمل تھی۔ کم عمری میں ہی تصوف اور روحانی افکار کی جانب ان کا رجحان نمایاں ہو گیا تھا۔ انہوں نے اسلامیات میں گہرا علم حاصل کیاتھا اور وہ علماء، صوفیا اور عام لوگوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔
مرحوم بلپوری نے قوالی اور کلاسیکی موسیقی کی تربیت مشہور قوال نصرت فتح علی خان کے والداُستاد فتح علی خان سے حاصل کی۔ یہ تربیت محض سروں اور تالوں کی نہیں تھی بلکہ ایک روحانی مشق تھی جس نے مرحوم بلپوری کو فنی لحاظ سے پختہ اور روحانی لحاظ سے بلند درجہ عطا کیا۔ اُن کی آواز میں وہ درویشی تھی جو سیدھی دل پر اثر کرتی تھی اور سننے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی۔کشمیر میں اگرچہ نعت، منقبت اور صوفی کلام کی روایت قدیم تھی، لیکن قوالی ایک غیر معروف صنف تھی خصوصاً کشمیری زبان میں۔ غلام محی الدین بلپوری وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے کشمیری زبان میں قوالی کو متعارف کرایااورکشمیری ادب کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی ادب کو اپنی آواز دی۔ انہوں نے علامہ اقبالؒ، غالبؔ، داغ دہلویؔ، مولانا رومیؒ، میرؔ اور صائب تبریزیؒ جیسے عظیم شعرا کی غزلوں اور نظموں کو قوالی اور غزل کے انداز میں گایا۔ ان کی قوالیاں محض فن نہیں، علم و عرفان کی محفلیں ہوتی تھیں۔
بلپوری صاحب نے ریڈیو کشمیر سرینگر میں کافی عرصہ تک بطور فنکار اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کے پروگرام نعتیہ، قوالی، تصوف اور دینی تعلیمات پر مبنی ہوتے تھے۔ ان کی آواز سے کشمیر کے چپے چپے میں سحر طاری ہو جاتا تھا۔بلپوری صاحب کی زندگی درویشی اور سادگی کا نمونہ تھی۔ اُن کا لباس عام، طرزِ گفتگو نرم اور اخلاق اعلیٰ تھے۔27مئی 1997کو وہ دارِ فانی سے رخصت ہو گئے، مگر ان کے چھوڑے ہوئے نقوش آج بھی کشمیر کی روحانی اور ثقافتی فضا میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ان کی شاگردوں میں کئی مشہور قوال اور نعت خواں آج بھی اُن کے انداز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔بلپوریؒ کی قوالیاں کلاسیکی شاعری کا روحانی ترجمہ تھیں۔ انہوں نے اپنے فن کے ذریعے اردو، فارسی اور کشمیری ادب کو عوامی دلوں تک پہنچایا۔ ان کی چند معروف قوالیاں اور غزلیںمندرج ہیں۔داغ دہلویؒ کی مشہور غزل ’’ستم ہی کرنا، جفا ہی کرنا‘‘ کو انہوں نے ایسے انداز میں گایا کہ ہر مصرعہ درد اور حسنِ بیان کی تصویر بن گیا۔علامہ اقبالؒ کے اشعار ’’دل ہے مسلمان، میرا نہ تیرا، تو بھی نمازی، میں بھی نمازی‘‘ کو انہوں نے قوالی کی شکل میں پیش کر کے اقبال کی فکری گہرائی کو عام فہم انداز میں لوگوں کے دلوں تک پہنچایا۔ یہ قوالی خاص طور پر کشمیری نوجوانوں میں مقبول ہوئی اور اقبال کی فکر کو زندہ کر گئی۔مولانا الطاف حسین حالیؒ کے نعتیہ اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ کو انہوں نے جس سوز اور عقیدت سے گایا، وہ ہر سننے والے کے دل پر نقش چھوڑ گیا۔ اس کلام میں عشقِ مصطفی ؐ کی وہ گرمی تھی جو بلپوری صاحب کی آواز سے مزید بڑھ گئی۔فارسی زبان میں انہوں نے مولانا رومؒ اور مولانا عبد الرحمان جامیؒ کے اشعار کو نہایت لطیف اور وجد انگیز انداز میں پیش کیا، جس سے ان کے فن میں بین الاقوامی ادبی ذوق کی جھلک نظر آتی ہے۔
[email protected]>