فیاض بخاری
ادب، امن کی وکالت اور سماجی ایکٹوزم کے چراغ، راجہ عبدالقیوم خان جو ’’راجہ نذر بونیاری‘‘ کے نام سے مشہور تھے، 20 فروری 2024 کو ممبئی کے ایک ہسپتال میں75 برس کے عمر میںوفات پاگئے۔ ان کا انتقال اردو اور پہاڑی ادب کیلئے ایک دور کے خاتمے کی علامت ہے جو اپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو آنے والی نسلوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ نذیر بونیاری بارہمولہ ضلع کے ترکانجن بونیار کے خوبصورت گائوں میں2 جنووری 1949 میںپیدا ہوئے ، اورانہوں نے بنیادی تعلیم اپنے گاؤں ترکانجن میں حاصل کی۔ لکھنے کے فطری جذبے سے متاثر نذربونیاری نے اپنے بیچلر کورس کے لیے 1973 میں گورنمنٹ ڈگری کالج بارہمولہ میں شمولیت سے قبل لکھنا شروع کیا اورپھر کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر اور B.Ed کی ڈگری حاصل کرکے تعلیم میں ایک ممتاز کیریئر کی بنیاد رکھی۔ بطور معلم اپنی 43 سال کی خدمات کے دوران انہوں نے شمالی کشمیر کے تعلیمی شعبے کے منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے اور 2007 میں گورنمنٹ ہائی اسکول ترکاجن کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اُن کی لگن اور مختلف تعلیمی اداروں بشمول DIET کے لیے خدمات سے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے نوجوان ذہنوں کی پرورش کیلئے اپنے غیر متزلزل عزم کی مثال دی۔ تاہم ادب کے دائرے رہنے سے راجہ نذر حقیقی معنوں میں چمکے۔ پہاڑی اور اردو دونوں زبانوں میں اپنی 14 سے زیادہ شائع شدہ تصانیف کے ساتھ، اپنے بصیرت افروز نثر اور پْرجوش شاعری سے قارئین کو مسحور کیا۔ ان کی ادبی صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی۔اُن کی ادبی کوششیں صرف تحریری الفاظ تک محدود نہیں تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈی کوشر اور ریڈیو کشمیر سری نگر جیسے پلیٹ فارمز پر اینکر اور گلوکار کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے ایئر ویوز کو اپنی آواز دی۔ اپنی ادبی خدمات کے علاوہ وہ پہاڑی زبان کے تحفظ اور ترویج کیلئے ایک مضبوط وکیل تھے۔ تعلیمی اداروں کے اندر اور میڈیا کے ذریعے پہاڑی کے مقام کو بلند کرنے کیلئے ان کی انتھک کوششوں کا خوب اعتراف کیا جاتا ہے۔1970 میں انہوں نے روزنامہ چنار میں ایڈیٹر کا کردار بھی سنبھال کر نمایاں خدمات انجام دیئے۔ اپنےبصیرت انگیز اردو مضامین سے دہلی کے ترقی پسند مصنفین کی توجہ مبذول کرائی، جس سے انہیں وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ اپنی لسانی استعداد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کا ادبی ذخیرہ جموں و کشمیر میں بولی جانے والی نو زبانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کی اردو کتاب بعنوان ’’دل نامہ‘‘ اپریل 2020 میں شائع ہوئی، جس میں ان کی ادبی صلاحیتوں کو ظاہر کیا گیا اور قارئین سے داد وصول کی۔ مزید برآں ان کا کام متنوع اصناف تک پھیل گیا، ان کی اردو کتاب ’’شاردا چوٹی (سفر نامہ) گزشتہ سال شائع ہوئی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل
کی۔ ان کی دیگر شائع شدہ تصانیف میں ’’بنج ما کا بیٹا،یہ کس کی لاش ہے ،میرے کفن مائی،نمل، مٹھی نیچ،لیلال دے بنجارےاورسیرت تل نعمان‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ایک قابل اور ورسٹائل مصنف کے طور پر ان کی میراث ادب کے دائروں سے باہر ہے۔ وہ امن کی علامت اور سرحد پار ثقافتی تبادلے کے پرجوش وکیل تھے۔ ان کا مظفرآباد کا اکثر سفر منقسم برادریوں کے درمیان خلیج کو پاٹنا اور ادب کی عالمی زبان کے ذریعے افہام و تفہیم کو فروغ دینا ان کے عزم کا ثبوت ہے۔ اپنے اردگرد کی دنیا کے ایک مبصر کے طور پر راجہ نذر محض اپنے خیالات کو قلم بند کرنے سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی مشغول تھے۔ہر مسئلے اور معاملے پر اُن کی گہری نظر تھی، چاہےوہ ادب، ثقافت یا سماجی انصاف سے متعلق ہوں۔ اپنی برادری اور اپنے ملک کے لیے ان کی لگن اٹل تھی۔ ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنے کردار میںانہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن اور تعاون کی وکالت میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافتی اور ادبی تنظیموں کے ساتھی نمائندوں کے ساتھ سرحد پار وفود میں متنوع آوازوں کو شامل کرنے کے لیے انتھک لابنگ کی، باہمی افہام و تفہیم اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کے تبادلوں کی صلاحیت کو تسلیم کیا۔اپنے اعمال اور الفاظ کے ذریعے ہمدردی اور اتحاد کے جذبے کو مجسم کیا۔ اس کی میراث ادب کی تبدیلی کی طاقت اور گہرے اثرات کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے جو افراد تقسیم کے پار پل بنانے میں پڑ سکتے ہیں۔ ہم ان کی امن، افہام و تفہیم اور خیر سگالی کی پائیدار میراث کا بھی جشن مناتے ہیں۔ ان کے انتقال میں ہم ایک ایسے نور کو الوداع کرتے ہیں جس کے الفاظ حد سے گزر گئے اور جن کے اعمال نے ان تمام لوگوں کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑے، جنہیں اس کے ساتھ راستے عبور کرنے کی سعادت حاصل تھی۔ اگر چہ راجہ نذر بونیاری اس دارِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں لیکن ان کی میراث آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
( مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے نامہ نگار برائے ضلع بارہمولہ ہیں)
( رابطہ۔9858900055)
[email protected]