Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

مرحومہ عتیقہ جی: کیا ان کا کوئی نعم البدل ہوگا ؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 26, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
 وادی ٔ کشمیر کی ایک جانی مانی شخصیت محترمہ عتیقہ بانو کا وصال4؍اکتوبر2007ء کو ہو ا توعامتہ الناس کو بہت صدمہ ہو ا۔’ ’بہن جی ‘‘کے نام سے پکاری جانے والی مرحومہ کسی تعار ف کی محتاج نہیں۔اُن کا تعلق ایک شریف ،عزت دار اور علمی گھرانے سے تھا ۔ اُن کے دادا مرحوم مولوی غلام محمد حنفی سوپوؔری کشمیری زبان کے ایک معروف شاعر تھے۔حنفیؔ آپ کا تخلص تھا ،انہیں کشمیری زبان میںقرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی ،جو بدقسمتی سے ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا ۔ کہتے ہیں شومی ٔقسمت سے یہ شائع ہو ابھی تو کسی اور کے نام سے منسوب ہوکر ۔محترمہ عتیقہ جی کے والد گرامی مولانا محمد یاسین شاہ بے حد ذہین تھے۔ آپ دارالعلوم دیو بند اور امرتسرکے بعض دینی مدارس سے فیض یاب تھے۔آپ ایک سرگرم سیاست کار بھی تھے اور 1931کی تحریک حریت کشمیر کے ممتاز لیڈروں میں شمار ہوتے تھے ۔وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے اور شمالی کشمیر میں ان کی آتش بیاں تقریروں نے ڈوگرہ شاہی کے ایوانوں میںلرزہ پیدا کیا تھا ۔وہ مسلم کانفرنس کے لیڈرکی حیثیت سے پابند سلاسل بھی ہوئے تھے لیکن زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے۔محترمہ عتیقہ جی اپنی پیدائش کے ابتدائی ایام میں ہی اپنے والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوئیں اور اُن کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ اُن کی والدہ محترمہ کو تن تنہا اٹھانا پڑا ۔یہ ننھی بچی اپنے بچپن سے ہی بے حد ذہین اور تند و طرار تھی ۔ ابتدا ء ہی سے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتی رہیں،ایم اے اکنامکس اور ایم اے اردو کے علاوہ ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ہی محکمہ تعلیم میں اُستانی کی حیثیت سے اپنے سروس کیر ئر کا آغاز کیا ،بعد ازاں انسپکٹر آف سکولز،ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ،جوائنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن اور ڈائریکٹر لائیبرریز کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہیںلیکن سرکاری عہدوں پر قائم رہتے ہوئے بھی وہ علمی ،ادبی ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں سے وابستہ رہیں۔وہ اسلام پسند تھیں اور صوم و صلواۃ کی پابند بھی۔ساٹھ کی دہائی ہی سے میرا اُن سے غائبانہ تعارف تھا جب میں ایگریکلچر کالج کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سوپور میں مقیم تھا ۔میرے والد صاحب ماسٹر غلام حسن مخدومی بانی ہائر سیکنڈری سکول قلم آباد ہندوارہ جوکہ خود ایک علمی،سیاسی اور سماجی شخصیت تھے، محترمہ عتیقہ جی کے والد بزرگوار محمد یاسین شاہ صاحب کے ہم عصر اور قریبی ساتھی تھے۔تحریک حریت کشمیر کے سلسلے میں اُن کے جیل کے ساتھی بھی رہے تھے۔چونکہ وہ خود علمی شخصیت تھے، اس لئے تعلیم و تعلم سے وابستہ افراد کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔اپریل 1967ء میں جب جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد صابر نے قصبہ سوپور سے پہلی بار اسلامک اسٹیڈی سرکل جموں و کشمیر کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی تو خواتین کے شعبہ میں سرکل کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے سلسلے میں راقم نے سٹیڈی سرکل کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے پروفیسر صاحب اور دوسرے ارکان سرکل کے ہمراہ محترمہ عتیقہ جی سے ملاقات کی اور انہیں سرکل کے اغراض و مقاصدکی جان کاری دلائی ۔ اس کے نتیجے میں ضلع بارہمولہ میں مرحومہ عتیقہ جی نے سرکل کے شعبۂ خواتین کی ذمہ داری سنبھالی اور میری وساطت سے وہ سرکل کی لائبریری سے خواتین کے مطالعہ کے لئے کتابیں،رسالہ جات اور اخبارات منگایا کرتی تھیں۔اس عرصہ میں قصبہ سوپور میں اسلامک سٹیڈی سرکل کی طرف سے منعقد ہونے والی بیشتر تقریبات ،جن میں یوم اقبال اور مختلف موضوعات پر سمپوزیم اور مباحثے ہوا شامل تھے ،میں مرحومہ اکثر شامل رہتی تھیں ۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب وہ ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے چند سال راجستھان میں مقیم رہیں۔چونکہ ان کی ریاست سے غیر حاضری میں قصبہ میں کوئی دوسری خاتون ان کا نعم البدل نہ بن سکی اورسرکل کی خواتین ونگ برائے نام ہوکر رہ گئی۔1970ء میں جب میںنے پہلی بار قصبہ سوپور سے  ہفت روزہ اخبار ’’ترجمان الحق ‘‘سرکل کے آفیشل آرگن کے بطور جاری کیا تو مرحومہ نے اس کے تئیں نہ صرف اپنی زبردست دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ خواتین کے دائرہ میں اس کی اشاعت میں بھی اپنا بھرپور تعاون دیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ راجستھان میں اُن کے قیام کے دوران میں اپنی ذاتی نگرانی میں  ہفت روزہ ’’ترجمان الحق‘‘ کے دفتر واقع بڈشاہ چوک سرینگر سے ان کے نام باقاعدگی کے ساتھ اخبار سپرد ڈاک کرتا تھا اور اگر اس میں تاخیر ہوجاتی تو وہ خط کے ذریعہ یاد دہانی کراتی تھیں۔بعدازاں مرحومہ نے ایک کاپی کے بجائے پانچ پانچ کاپیاں ارسال کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی جنہیں وہ راجستھان میں اپنے ہم عصر ساتھیوں میں تقسیم کیاکرتی تھیں۔جب وہ ایم ایڈ کرکے واپس آئیں تو اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ علمی،ادبی ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ’’مجلس النساء‘‘کے نام سے ایک خواتین تنظیم کا قیام عمل میں لایا ۔رجسٹریشن کے لئے ضروری لوازمات کے لئے اگرچہ ان کی قائم کردہ تنظیموں اور اداروں کے دوسرے ممبران بھی تھے لیکن اصل میں وہ فرد واحد تھیں جو اداروں کی صورت میں کام کرتی تھیں۔عورتوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا، بالخصوص دور دراز علاقوں میں ادارے قائم کرکے اور دیگر روزگار سکیموں میں خواتین کو شامل کرکے ان کی تعلیم اور گزر بسر کا اہتمام کرتی تھیں ۔سوشل ویلفیئر سکیموں سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے سینکڑوں بے کس ،بے سہارا عورتوں،ناداروں اور بیوائوں کی باز آباد کاری کا کام کیا ۔
1975میں جب میں نے اسلامک ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی تو انہوں نے اُسے وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیا اور 1976ء میں جب میں نے سوسائٹی کی طرف سے ماڈل پبلک سکول سوپور کی بنیاد ڈالی تومرحومہ نے نہ صرف سراہنا کی بلکہ اس کی طرف سے منعقد ہ تقریبات میں بھی شریک ہوتی رہیں۔آج کل سرکاری میڈیا میں اُن کو ایک عالم اور سرگرم سماج کارکن کے بجائے محض ’’میراث محل‘‘کی بانی کی حیثیت سے پروجیکٹ کیا جارہا ہے اور ان کی زندگی کی دوسری اہم مصروفیات اور کارہائے نمایاں کو نظر انداز کرکے ان کی شخصیت کو کشمیری کلچر کو فروغ دینے کی سرگرمیوں تک ہی محدود رکھاجارہا ہے ،جب کہ یہ ان کی سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی مصروفیت ہے، جس کا تصور تب ان کے ذہن میں آیا جب وہ ڈائریکٹر لائبیرریز کے عہدے پر فائز تھیں۔انہیں عمر بھر اپنے نامور دادا مولوی غلام محمد حنفیؔ سوپوری کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا قلق تھا کہ کس طرح کشمیری زبان میں ان کے ترجمہ قرآن کی عرق ریزی کسی اور کے کھاتہ میں چلی گئی اور اس ناانصافی کے خاتمہ کے لئے ایک دور میں مرحومہ نے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ بھی لیا تھا اور وہ تمام قلمی نسخے جمع کئے تھے جن کی بنیاد پر وہ یہ دعویٰ کرنے میں حق بہ جانب تھیں کہ اصل میں کشمیری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اُن کے دادا جی نے کیا تھا لیکن معاملہ چونکہ بعضوں سے ٹکرائو کا تھا اور ان کی سرکاری ذمہ داریوں کی مصروفیت بھی اس میں آڑے آئیں، اس لئے بات نہ بنی۔بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے اس بارے میں عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایاتھا لیکن عدالت میں عدم پیروی کی وجہ سے وہ اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرپائیں۔وہ ایک روشن خیال اور بیدار مغز خاتون تھیں جو تن تنہا مختلف محاذوں پر سرگرم تھیں۔وہ خواتین کے حلقوں میں اپنے ہم قدم پیدا نہ کرسکیںکیونکہ جس کسی بھی خاتون کو اس نے کوئی ذمہ داری تفویض کی ،وہ خانگی زندگی کی مصروفیتوںکی وجہ سے اُن کو تعاون فراہم کرنے سے قاصر رہیں۔جب کہ انہوں نے خود خانگی زندگی سے لاتعلق ہوکر اپنے آپ کو صنف نازک کی فلاح اور بہتری وبھلائی کے کاموں کے لئے وقف کر رکھا تھااور تا دم آخریں اسی تگ و دو میں مصروف رہیں۔مرحومہ نے درجنوں سکول ،بی ایڈ کالج اور دوسرے سماجی اور ثقافتی ادارے قائم کرکے ان کے لئے زمینیںحاصل کیں،عمارتیں تعمیرکروائیںاور Assetsبنائے ۔اب ان کے انتقال کے بعد یہ سب کچھ اُن کے وارثوں میں تو منتقل ہوجائے گا جب کہ اُن کی اصل میراث اُن کی علمی دولت تھی جس کا کا فی الحال کوئی وارث نظر نہیں آرہا ہے،نہ ہی اُمید ہے کہ اُن کا کوئی وارث اُن کے مشن کو آگے لے جائے گا ۔اُن کے قائم کردہ ادارے تو چلتے رہیں گے لیکن ان ادروں کے مشن کے پیچھے جو رروح کارفرما تھی، وہ اب باقی نہیں رہی۔اس لحاظ سے ان کی موت ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک انجمن اور ایک مشن کی موت ہے ۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند تعالیٰ مرحومہ کی لغزشوں کو معاف کرے ،اُن کے حسنات بلند کرے اور انہیں اپنی جوار رحمت میںجگہ دے اور اُن کے لواحقین کو صبر اور مرحومہ کا نام زندہ رکھنے کے لئے اُن کے مشن پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
موبائیل9419052729 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پولیس نے اندھے قتل کا معاملہ24 گھنٹوں میں حل کرلیا | شوہر نے بیوی کے ناجائز تعلقات کا بدلہ لینے کیلئے مل کر قتل کیا
خطہ چناب
کشتواڑ کے جنگلات میں تیسرے روز بھی ملی ٹینٹ مخالف آپریشن جاری ڈرون اور سونگھنے والے کتوں کی مدد سے محاصرے کو مزید مضبوط کیا گیا : پولیس
خطہ چناب
کتاب۔’’فضلائے جموں و کشمیر کی تصنیفی خدمات‘‘ تبصرہ
کالم
ڈاکٹر شادؔاب ذکی کی ’’ثنائے ربّ کریم‘‘ تبصرہ
کالم

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?