میں اپنی بات کا آغاز بھارت کی سابقہ وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے ان الفاظ سے کرنا چاہوں گا۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ " There are two kinds of people, those who do the work and those who take the credit. Try to be in the first froup; there is less competiyion there."
’’اس دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو خدمت کرتے ہیں دوسرے وہ جو اس کا کریڈٹ لینے میں آگے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہے کہ ہمارا نام پہلے قسم کے لوگوں میں لکھا جائے کیونکہ اس میں زیادہ مقابلہ نہیں ہے،،
مر حومہ عتیقہ بانو کا شمار کشمیر کی عصری تاریخ تعلیم وتعلم میں ہمیشہ پہلے قسم کے لوگوں میں کیا جائے گا ۔ انہوں نے ہمیشہ کسی نام ونمود اورلالچ کے بغیر بے لوث ہوکر عوام کی ہمہ گیر اور مخلصانہ خدمت کی ہے جس کو ہمیشہ کے لیے دلوں میں یاد رکھا جائے گا۔ میرے خیال میں ماضیٔ قریب میں ہمیںاس طرح کی کوئی دوسری ایثار پیشہ اورصلاحیتوں سے بھر پور کشمیری خاتون دیکھنے کو نہیں ملی مگر امید ہے کہ ان کی شخصیت اور کنٹری بیوشن سے متاثر ہوکرہمیں مستقبل قریب میںوطن میںایسی دیگرخواتین تندہی اور لگن سے اپنے اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیں گی۔
محترمہ عتیقہ بانو13؍جون 1940ء میںڈوگرہ راج کے دوران مشہور و معروف شاعر اور مصنف مرحوم حنفی سوپوری کے خاندان کے چشم و چراغ مرحوم مولوی یاسین صاحب ،جو ایک سیاسی اور مذہبی شخصیت تھے، کے گھر محلہ جامع قدیم سوپور کشمیر میں تولد ہوئیں ،ان کا نام عام کشمیریوںکی طرح’’ عتیقہ بانو،، ( عاتکہ )رکھا گیا۔ عرف عام میں ہم انہیں عتیقہ جی یا بہن جی کہا کرتے تھے۔ یہ لڑکی اپنے بچپن میں ہی شفقت ِپدری سے محروم ہوئی جس کی بنا پر کفالت کا بارمرحومہ کی والدہ راجہ بیگم( مرحومہ ) پر پڑا ۔ یہ دین دار اور پارسا خاتون تھی۔ اس زمانے میں خواتین کا گھروں سے قدم باہر رکھنا نہ صرف معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ اعلیٰ تعلیم اور گورنمٹ ملازمت ان کے لئے گویا ایک پاپ تھا۔ عام طور بچوں کو مکاتب یا مدارس میں تعلیم کے لیے بھیجا دیاجاتا جو جدید تعلیم سے بہت دور تھے،مگر عتیقہ جی کی والدہ مرحومہ نے ایک طرف گھر کا نظم و نسق سنبھالا اور دوسری جانب سماجی دبائو کو نظر انداز کرکے اپنے بچوںکو اسلامی تعلیم کے ساتھ مروجہ تعلیم دینے میں اپنی وسعت قلبی اور کشادہ ذہنی کا عملی مظاہرہ کرکے ان کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کا عزم با لجزم کیا۔ گھر میں کوئی بڑا مجودنہیں تھا جو گھرکی دیکھ بھال کرسکے یا بچوں کی کفالت کی ذمہ داریاں سنبھال سکے، اس لیے انہیں خود ہی یہ محاذ سنبھال کر ہر کام انجام دینا پڑا ۔آج کی طرح اسکو ل یا کالج عام نہ تھے مگر کس سے معلوم تھا کہ یہ یتیم اور دینی گھرانے کی روایت پسند بچی کشمیر کے افقِ تعلیم وتدریس پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے گی۔
محترمہ عتیقہ جی کا زمانہ ریاست جموںو کشمیر میں سیاسی غلامی ،جبرو استبداد اور معاشی استحصال کا زمانہ مانا جاتاہے۔وقت کا ڈوگروہ حکمران عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرکے اپنی حکومت چلاتا تھا اور لوگوں سے زور و زبردستی (بیگار) سے کام لیتا تھا۔ لوگوں میں حکومت کا اتنا ڈر اور خوف تھا کہ ایک معمولی چپراسی سے لوگ ڈرتے سہمتے تھے۔ ڈوگرہ حکومت کے ناقابل بیان مظالم کے خلاف پورے کشمیر میں ایک تحریک آزادی بھی جاری تھی جس میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی پیش پیش تھیں۔ ان دنوں خواندگی اور ذہنی پسماندگی عام تھی مگر تعلیم زیادہ تر مردوں کا حق سمجھاجاتاتھا ۔معاشی حیثیت سے عورت کو بے بس ہونے کے سبب مردوں کی مرضی کے تابع تھی۔ اس کی ملازمت با لکل ہی معیوب سمجھی جاتی تھی اور اپنی محنت کی کمائی پر اسے کوئی اختیار نہ تھا بلکہ اس کاشوہر ہی سارے اختیارات کا مالک ومختار ہوتا تھا۔ یہ صورت حال اگرچہ اب کافور ہوچکی ہے مگر کہیں کہیں کسی نہ کسی صورت میں اس کے آثار پائے جاتے ہیں مگر اس کے باوصف چند خواتین نے نہ صرف تعلیمی میدان میں اپنا نام روشن کیا بلکہ بہت سے سیاسی، تعلیمی و سماجی عہدوں منصبوں پر کام کر کے دکھایا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ ان میں محترم آغا اشرف علی کی والدہ مرحومہ بیگم ظفرعلی کا نام سرفہرست ہے جو چیف انسپکٹر آف سکولز ، ڈپٹی ڈائر کٹر ایجوکیشن ، ڈائر کٹر وومنز ایجوکیشن ، ڈپٹی چیر مین سوشل ویلفیئر ایڈاوائزری بورڈ، ممبر قانون ساز اسمبلی ،رہ چکی ہیں۔ اس کے بعد مرحوم احمد علی شاہ کی دوبیٹیاں محترمہ مس محمودہ احمد علی شاہ اور بیگم جلال الدین کشمیر ویمنزکالج کی پرنسل رہ چکی ہیں، جب کہ ان کی بھابھی محترمہ ساجدہ ضمیر احمد بھی اعلیٰ تعلیمی عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں۔ انہوںنے کشمیر کے تعلیمی اداروں کو رونق بخشی اور مسلمان خواتین کوآگے بڑھنے کی نہ صرف ترغیب دلائی بلکہ ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ محترمہ ساجدہ ضمیر صاحبہ تھیں جنہوں نے محترمہ عتیقہ جی کو آگے آنے کی ترغیب دی اور اس سفر میں ان کی رہنمائی بھی کی۔
مجھے ذاتی طور محترمہ عتیقہ جی سے کئی بار ملاقات کاشرف ملا۔ آخری ملاقات دوسال قبل ہوئی تھی جب وہ 74برس کی ہوچکی تھیںمگران کے ماتھے پر تھکاوٹ کے آثار قطعی نظر نہیں آتے۔ وہ بڑے ہی مضبوط اعصاب کی مالکہ تھیں جنہوں نے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر نہ ہار تسلیم کی نہ ہی کسی کے سامنے اپنا سر جھکایا ، بلکہ وہ ہمیشہ ہمت ، حوصلہ اور عزم کے ساتھ آگے ہی بڑھتی رہیں، وہ بھی اس ماحول میں جب کہ سماج میں مردوں کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھااور ہر شعبہ ٔ حیات انہیں کے کنٹرول میں تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سوپور کشمیر میں ہوئی اوبی اے کی ڈگری وویمنز کالج سرینگر سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد Banasthelay Vidya Peath, راجستھان یونیورسٹی سے اردو اور معاشیات میں ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ میں نے محترمہ کو اپنے بچپن میں اس وقت دیکھا جب وہ ہمارے گائوں کے ایک پرائیمری اسکول کے معائینہ کے لیے سوپور سے پیدل چل کر تشریف لائی تھیں۔ اسکول ہمارے ہی محلہ کے ایک نجی گھر کی دوسری منزل میں قائم تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ا س وقت اپنی ماں کے کندھوں پر سوار ہوکر ان کی اوڑھنی( دوپٹے) سے کھیل رہا تھا اووہ کہہ رہی تھیں کہ یہ دیکھو لڑکیاں کس طرح آج اسکول کی صفائی کررہی ہیں ، مجھے بھی صحن کی صفائی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اسکول کی یہ عمارت دوسرے بہت سے گھروں سے گھیری ہوئی تھی جب کہ سبھی کا صحن مشترک تھا۔ محترمہ عتیقہ جی کے عزت و احترام کے لیے کسی ہمسایہ کے ہاں سے پوال کی بنی چٹائی منگوائی گئی ۔ اسی دوران محترمہ عتیقہ بانو اپنی شان و شوکت کے ساتھ کرسی کے بجائے عام خواتین کے درمیان بیٹھ گئیں جس سے ان کی بے تکلفی اور اپنائیت کا بھر پور اظہار ہورہا تھا ۔ خواتین بھی خوب گھل مل کر انہیںاپنی بپتا سنانے میں کوئی عار محسوس نہ کررہی تھیں ۔ وہ اپنے روایتی لباس برقعہ اوڑھے ہوئے ، پائوں میں سنڈل (چیل) پہن کر جب فرش زمین پربیٹھیںتو پورے مجمع پر گویا سناٹا چھا گیا۔ میں چونکہ بہت چھوٹا تھا ، اس لئے اس میں کیا دلچسپی ہوسکتی تھی کہ یہ ہمسایہ عورتیں اس باوقار اور رعب دار اجنبی عورت سے کیا کہہ رہی ہیںمگر ایک بات ضرور ہے کہ میرے ذہن میں تب سے اب تک عتیقہ جی کا وجیہہ اور تابناک گول چہرہ اور ان کی متاثرکن شخصیت کے حدوخال پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہوئے۔ محترمہ کے ساتھ ہمارے گھریلو تعلقات تھے اوروہ کئی بار ہمارے گھر تشریف لائیں اور بڑی محبت اور بے تکلفی سے میری والدہ سے محو گفتگو ہواکرتی تھیں۔ والدہ مرحومہ کی وفات پر وہ چار فٹ کی برف میں پیدل چل کر ہمارے گھر پہنچیں، دن بھر دوسری خواتین کے ساتھ وہاں ٹھہری رہیں۔ میں نے ان سے پوچھا بھی کہ آپ کو اتنی تکلیف ٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ کہا وہ میری بہن تھی، میں اکثر ان کے ساتھ اپنائیت کے ساتھ نمکین چائے پیاکرتی تھیں ، یہ میرا دینی اور انسانی ا فرض تھا کہ میں یہاںماتم پُرسی کے لئے پہنچوں۔
قصبہ سوپور گونا گوں شخصیات کی جائے پیدائش رہی ہے۔ ان میںکچھ ایسی قدآور شخصیات جو اب اس دنیا میں نہیں رہی ہیں اور کچھ جو ابھی بھی بقید حیات ہیں جنہوں نے سخنے ، قدمے ، درمے اپنی اپنی بساط کے مطابق نہ صرف سوپور کی خدمت کی ہے بلکہ پورے ملک و ملت کے لئے اپنی انمول خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں محترمہ عتیقہ جی صاحبہ کا نام زندہ اور تابندہ رہے گا۔محترمہ عتیقہ جی نے 1958ء میں بیس سال کی عمر میں اپنے کرئیر کا آغاز ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا ۔1965 ء میں انسپکٹر آف اسکولز بنیں جب کہ 1977ء میں ان کو چیف یجوکیشن آفیسر کا درجہ دیا گیا۔1994ء میں جوائنٹ ڈائر کٹر ایجوکیشن اور 1997ء میں ڈائرکٹر لائبرر یز اینڈ ریسرچ مقرر کی گئیں۔ اپنے شایان ِ شان عہدے پانے میں انہیں کسی کی سیاسی معاونت اور سفارش حاصل نہ رہی جیسا کہ آج کل سیاسی لوگ اپنوں کو آگے بڑھانے یا انہیں کوء مرضی کا سرکاری منصب دلانے میں سیاسی اثرو رسوخ کا ا استعمال کرتے ہیں ۔ سینیارٹی کی روشنی میںعتیقہ جی کو ایک مرحلے پر ڈائرکٹر آف اسکول ایجوکیشن بننا تھا جہاں وہ اپنے تجربے اور خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھاتیں مگر بدقمتی سے ہمارے ایک نامور سیاسی د ل بد لو اور ابن الوقت سیاست دان نے اپنا کروفر استعمال کر کے ناظم تعلیمات کی اصل حقدار عتیقہ جی کے حقوق پر شب خون مرواکے یہ منصب گھر کی چوکھٹ سے باندھ دیا ۔اس پر صرف اللہ کے سہارے جینے والی محترمہ عتیقہ جی کو ڈائریکٹر آف لائبرریز کے عہد ے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ بہر حال اس مقام تک پہنچنے میں محترمہ عتیقہ جی کی اپنی انتھک محنت وصلاحیت ،ذہانت و ذکاوت اور حوصلہ مندی کا وصف رفرما تھا جو ہمیشہ ان کاساتھ دیتا رہا۔ جس عزم و حوصلہ کے ساتھ انہوں آنکھ میں آنکھ ملاکر حالات کا مقابلہ کیا وہ انہیں کا حصہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی وہ کسی اسکول کی انسپکشن کے لیے جاتی تھیں تو پورے اسکول کا عملہ متحرک ہو جاتا تھا اور ہر چیز کے لئے تھر تھر کانپتا رہتا ۔ میں جب میں چھٹی جماعت میں سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھا تو معلوم ہوا کہ محترمہ عتیقہ جی معائینہ کے لئے تشریف لارہی ہیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کس وقت پہنچیں گی۔ یہ سننا تھاکہ دودن پہلے ہی سے اسکول کی صفائی ستھرائی ہونے لگی۔ لڑکوں سے کہا گیاکہ وہ نہا دھوکر اور اسکول وردی پہن کر آئیں۔ ہیڈ ماسٹر صاجب اوراساتذہ دوسرے دن معمول سے پہلے ہی سکول میں آگئے تاکہ انسپکٹر صاحبہ کو یہ تاثر ملے کہ یہ سب نہ صرف وقت کے پابند ہیں بلکہ نظم و ضبط میں کسے ہوئے ہیں۔ مرحومہ چار بجے تک نہیں آئیں ، جونہی چھٹی ہونے والی تھی تووہ کسی کونے سے نمودار ہوئیں اور اسکول کا معائنہ شروع کیا۔ وہ اپنے دور میں ہمت و حوصلہ کے ساتھ ان جگہوں کا معائنہ کے لیے جاتی رہیں جہاں کوئی ٹرانسپورٹ بھی مہیا نہیں ہوتا تھا اور گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں پہنچ جاتی تھیں۔ محترم محمد عبداللہ رینہ جو ایک پروفیسر رہ چکے ہیں، نے مجھے بتایا کہ ایک بار میں محمد شفیع اوڑی صاحب جووزیرتعلیم رہ چکے ہیں، کے ساتھ کسی مسئلہ پر گفتگو کررہا تھا تو محترمہ عتیقہ جی کا تذکرہ ہوا ، اوڑی صاحب نے کہا کہ جب لوگوں نے اس باہمت خاتون کو دوردراز علاقوں میں گھوڑے پر سوار ہوکر دفتری کام کر تے دیکھا تو اسی مناسبت سے لوگوں نے انگریز راج کے خلاف علم ِ بغاوت علم بلندکر نے آ ہنی خاتون ’’جھانسی کی رانی،، کا خطاب عتیقہ جی کو دیا۔مجھے یہ معلوم نہیں کہ مرحومہ اپنے دورِ ملازمت میں کن جان گدازمراحل سے گزری ہوگی اور کن سخت ترین منازل سے ان کا واسطہ پڑا ہوگا، خاص کر ایسے ماحول میں جہاں صاحبانِ کرسی خواتین کے یہاں ایک بھی نہ چلتی ہو یا ان کی اَن سنی کردی جاتی ہو ۔ آج گرچہ کشمیر میں بہت سی خواتین سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر کام کررہی ہیں مگرعتیقہ جی کے دور سے ان کاموازنہ کرنا سراسر زیادتی ہوگی ۔ وہ دور ہر لحاظ سے نرالا تھا اور چند مٹھی بھرمسلم خواتین ہی جدید تعلیم سے آراستہ تھیںجب کہ ان کے لئے زندگی کا ہر راستہ غیر ہمواراوردشوار تھا۔
محترمہ نے اپنی اوصاف اور خصوصیات کی بناپرخواتین میں ہی نہیں بلکہ مردوں میں یہ احساس اجاگر کیا کہ تعلیم ہر شخص کی ایک ناگزیر ضرورت ہے ،اس کے بغیر ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لایا نہیں جاسکتاہے۔ انہوںنے خواتین میں یہ روح پھونک دی کہ وہ اپنے آپ کو زندگی کی دوڑ سے باہر نہ رکھیں بلکہ ایک ماں ، ایک بیٹی، ایک بہن، ایک شریک حیات ،ایک بہو اور ایک ساس کا درجہ رکھتے ہوئے وہ تہذیب و تمدن اور حساس وذمہ دار معاشرے کی معمار ہیں۔ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ صالح سماج کی تعمیر و ترقی میں بہت سی اہم ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکتی ہیں ،اس لیے ان کو بھی اپنے دائرہ کار میںمعاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ مرحومہ نے اپنی زندگی کا یہ مشن بنا رکھا تھا کہ شہروں میں نہیں بلکہ گائوں اور دیہاتوں میں بھی ترجیحی بنیادوں پر خواتین کے لے ایسے یکسان مواقع پیدا کئے جائیں جن کی وساطت سے معاشرے میں ان کی عزت و تکریم نہ صرف اضافہ ہو بلکہ وہ اپنے بل پر کچھ اچھا کرنے کی قابل ہوں،محترمہ نے عملًایہ سب کچھ کر دکھایا۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں ’’ مجلس النساء،، کے نام سے ایک نسوانی ادارہ قائم کیا تھا جس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ یہ لڑکیاں معاشرے میں اپنے کو ایڈجسٹ ہونے کا گر سیکھیں۔ اس ادارے کے زیر سایہ خواتین کشمیر کو ایک حوصلہ مندپیغام ملا، انہیں اپنی فطری صلاحیتیں منوانے کا موقع ملا، ان کو نہ صرف ایک کارکشا شناخت ملی بلکہ ان کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار ہونے کے امکانات روشن ہوئے ۔محترمہ نے یہ ثابت کردیا کہ ایک مسلم خاتون اپنا اسلامی تشخض مکمل طور برقرار رکھتے ہوئے اور باپردہ رہ کر ایسے سنہری کارنامہ انجام دے سکتی ہے جن سے وہ رشک ِزمانہ بن سکتی ہے ۔ وہ ہمیشہ باپردہ رہتی تھیں یہاں تک کے دفتری اوقات میں بھی انہوں نے پردے کا پورا پورا اہتمام کیا۔ وہ ہمیشہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارنے کو ہی ترجیح دیتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین میں عزم، حوصلہ اور ہمت کو اُجاگر کیا اور عملًا انہیں بتایا کہ گھریلو ذمہ داریوںکے ساتھ ساتھ وہ معاشرے کی تعمیر میں اہم اور مثبت رول بھی ادا کرسکتی ہیں ۔یہ ایک معمہ ہے کہ انہوں شادی نہیں کی، اس کی کیا وجوہات رہے ، اس بارے میں جب ان سے ا ستفسار کیا گیا تو جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے دیاکہ نکاح نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، بس نہ ہوسکا ۔شاید مشیت ِالہٰی یہی تھی جس کی بنا پر میں کسی رشتۂ ازدواج میں منسلک نہ ہوسکی۔
ڈائرکٹر آف لائبرریز کے عہدے کے دوران انہوںنے کشمیر کے کونے کونے میں نہ صرف کتب خانوں کا جال بچھایا بلکہ ایسے دور دراز گائوں میں اسکول قائم کرنے کی حتی المقدورکوششیںبھی کیں جہاں ایک عام انسان آسانی سے پہنچ بھی نہیں سکتاہے۔ سرکاری نوکر ی سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بھی وہ گھر میں سکون سے نہ بیٹھیں بلکہ قوم و ملت کا درد سینے میںلئے ہوئے اپنے آبائی علاقہ قصبہ سوپور میں بہت سارے اسکولز قائم کئے جن کی وہ خود نگرانی کرتی رہیں۔ کشمیر وومنز کالج آف ایجوکیشن سوپور، المصطفی پبلک ہائرسکنڈری اسکول سوپور، المصطفٰی پبلک اسکول بارہمولہ، لائیٹ ہاؤس پبلک سکینڈری سکول ہندوارہ ،اس سلسلے میںخاص طور قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ نورباغ سوپور میں ایک بی ایڈ کالج بھی تعمیر کیا۔ گزشتہ تیس سالوں کے دوران جب کہ جھڑپوں ، جلسوں جلوسوں ، ہڑتالوں اور کریک ڈاؤنوں کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کی تعلیم خاصی متاثر ہوتی رہی ، انہوںنے لڑکیوں کے لیے الگ سے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے ادارے بنائے جہاں لڑکیوںکو سلائی ،کڑھائی اور پینٹنگ یا کمپوزنگ سکھانے کا بندو بست بھی کیا گیا۔محترمہ عتیقہ صاحبہ کے کارناموں میںسے ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کشمیر کی سات سو سالہ تاریخ کو ایک میوزیم ’’میراث محل،، عجائب گھر کے نام سے محفوظ کردیا جس کو اگر کشمیر کا برٹش میوزیم کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہاں کشمیر کی تاریخ ، ثقافت ، تہذیب و تمدن اور مذہب سے متعلق مختلف نوادرات کو قرینہ سے مختلف ڈائزنوں کے ساتھ سجارکھا گیا ہے۔ اس میوزیم میںجہاں پرانے زمانہ میں روزہ مرہ استعمالی اشیاء، ہل چلانے کے جوہڑ پرانی چپل (پلہور) وغیرہ موجود ہیں، وہیں آپ کو کشمیری پھرن کے بہت سے نمونے ، پرانے زمانہ کا برقعہ یا نقاب (قصابہ) جس سے معزز خواتین بہت شوق سے اپنے سروںکو ڈھانپتی تھیں، بھی آپ محفوظ پائیں گے۔ اس کے علاوہ اس میوزیم میں لوہے کی پانچ کیلو ہانڈی، پرانی ڈولی (زاپان یا ڈولی) کو بھی محفوظ کیا گیا ہے ۔اس میراث محل کے اند مختلف مذاہب سے متعلق مختلف کتبات بھی قرینہ سے رکھے گئے ہیں۔ تین سو سالہ پرانی رحل ( لکڑی کا سٹینڈ)جس پر قرآن رکھ کر کر پڑھا جاتا ہے ،اسے بھی مزین کرکے یہاں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ تین سو سالہ پرانا ہاتھ سے لکھا ہواقرآن پاک کا نسخہ بھی اپنی پوری شان بان کے ساتھ یہاں دیکھا جاسکتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کی ایک مورتی جس میں گائے کی شکل کو کندہ کیاگیا ہے، ہندو مذہب کی ابتدائی تاریخ کے نقوش اجاگر کر تی ہے۔ غرض وہ بہت ساری نایاب چیزیں اس میوزیم میں عتیقہ جی ذوق وشوق سے محفوظ کرلی ہیں جو ہماری ثقافت اور تہذیب سے گہرے طور جڑی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے ذاتی شوق کی بناپر آثار قدیمہ کی وہ تمام چیزیں جمع کرنے کی کوشش کی ہیں جو کشمیر کی ثقافت، یہاں کی تہذیب و تمدن، یہاں کی تاریخی روایت اور صنعت و حرفت ، سماجی زندگی اور کارو باری امور سے متعلق ہیں۔ ان نایاب چیزوں کے حصول کے لئے انہیں کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑی ہوگی، یہ وہیں سخت جان خاتون جانتی ہوں گی۔میرے خیال میں نجی تو نجی سرکاری سطح پر بھی ہمارے کسی حکمران نے اس طرح کا کوئی کارنامہ منفرد کارنامہ انجام دینے کا خواب وخیال میں بھی نہ سوچا ہوگا۔ ضروت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر اس خزانہ کو تحفظ دینے کی ہرممکن کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ یہ ایک انمول تحفہ ہی نہیں بلکہ ایک مقدس قومی امانت بھی ہے جو پورے کشمیر کی تاریخ سے پیوستہ ہے
ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر لوگ گھروں میں آرام سے بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر محترمہ عتیقہ جی اپنی76؍سالہ زندگی میں پل پل پوری قوت و طاقت کے ساتھ میدانِ عمل میں کھڑی نظر آتی رہیں ۔انہوں نے بے لوث ہوکر اوربغیر کسی لالچ یا صلہ وستائش کے اپنی قوم کی خدمت کی ہے جسکا کریڈٹ ان کے نامہ ٔاعمال کھاتے میں ضرور کامیابی کے عنوان سے جائے گا ۔ ابھی چند روز پہلے ان سے ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی تو کہنے لگیں آ پ ملے بغیر لندن چلے گئے ۔ تو میں نے معذرت کے ساتھ کہا مجھے معاف کریں بھول ہوگئی۔ بولیں کوئی بات نہیں، اگلے سال جب آئیں گے تو ضرور مل کے جانا ۔مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقت ہوگی ۔ محترمہ عتیقہ جی اب وہاں پہنچ گئی جہاں ہم سب کو ایک ایک کرکے جانا ہے ؎
جاتے ہوئے کہتے ہیں قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
مرحومہ بہت ساری غیر سیاسی تنظیموں کی ممبر اور سرپرست بھی رہ چکی تھیں۔ المختصر ان کی تابناک ومتحرک زندگی میںہم سب کے لیے یہ سبق اور پیغام دیتی ہے کہ زندگی جہد مسلسل، عزم مصمم ، عرق ریزی اور بے لوث ہوکر اوروں کے لئے کام کرنے کا نام ہے ۔ یہ کام سرانجام دیتے ہوئے انہوں کبھی بھی اپنے پیارے اصولوں سے
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ امانت داری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض انجام دئے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی لغزشوں سے درگزرفرماکر انہیں جنت میں اعلیٰ مقام ومر تبہ عطا کرے ، انہوںقوم ملت کے لیے جو بے لوث خدمات انجام دی ہیں انہیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمارے درمیان مزید عتیقہ بانوؤں کی روشن شخصیات کا اُجالا پھیلے۔(آمین)