ہلال بخاری
شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے لیکن جب کسی بادشاہ کو اپنے وطن سے جلا وطن کر کے کسی پنجرے میں قید کیا جائے تو وہ بادشاہ نہیں بلکہ ایک بے بس بلا کی طرح جیتا ہے۔ یہی مرجان کے ساتھ ہوا وہ ایک ببر شیر تھا جسے جرمنی کے ایک جنگل سے قید کرکے ہزاروں میل دور افغانستان کے ایک چڑیا گھر میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہاں لوگوں نے اسکا والہانہ استقبال کیا۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے اور اپنے ساتھ تحفے تحائف لاتے یعنی اس کو کچھ کھلاتے۔ دھیرے دھیرے مرجان بھی اس آلسی زندگی کا عادی ہونے لگا۔ اگر بغیر محنت کے دانا پانی میسر ہو تو آہستہ آہستہ دماغ محنت کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے اور محنت کرنے والوں کو احمق سمجھنے لگتا ہے۔
جب بادشاہ کو قید کرکے کسی پنجرے کی زینت بنایا جائے تو وہ بادشاہ نہیں بلکہ ایک تماشا بن کے رہ جاتا ہے۔ اسی طرح مرجان اپنے جنگل کا راجہ نہ رہا لیکن پھر بھی چڑیا گھر کی زینت بن کر رہ گیا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے مطلب کی خاطر دوسرے انسانوں کو بھی تماشا بن کر جینے کے لئے اکساتا ہے جانور کی تو بات ہی نہیں۔ جو پنجرے میں قید ہوکر دوسرے کے لئے گائے یا ناچے اس کی اپنی شخصیت اصل میں مسخ شدہ ہوتی ہے چاہے، اس کو خود اس بات کا اندازہ ہو یا نہ ہو۔
وہاں اس چڑیا گھر میں اور بھی جانور تھے جن میں سے چند اس سے بھی دلچسپ اور لاثانی تھے لیکن انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ ہمیشہ طاقت کا مداح رہا ہے اور بادشاہوں اور سیاستدانوں کی چاپلوسی بڑے شوق سے کرنے کو اپنا اعزاز سمجھتا رہا ہے۔
لیکن پھر دنیا کی ایک اور حقیقت یہ ہے کہ یہاں حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ انسان جب جنگ کا شکار ہوتا ہے تو وہ امن کی نعمت کے لئے ترستا ہے لیکن پھر دیرپا امن رہنے کے بعد کچھ لوگ اکتا جاتے ہیں اور انسان جب اکتا جاتا ہے تو اس کے ذہن میں تشدد جنم لیتا ہے اور پھر یہ جنگ خود بہ خود چنگاری کی طرح شروع ہوکر پہلے الاؤ بن جاتی ہے اور پھر جہنم نما آگ بن کر خس و خاشاک کو خاکستر کر دیتی ہے۔
جب اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے پیروکاروں نے جنگ مسلط کی تو ہر جنگ کی طرح ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں آشیانے جلے۔ مرجان کو جس چڑیا گھر میں رکھا گیا تھا اس کے منتظم بھی اس جنگ میں مارے گئے اور اس چڑیا گھر کا بہت سارا حصہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ مگر خوش قسمتی سے، یا پھر قسمت سے مرجان بچنے میں کامیاب ہوا۔ وہ بچا لیکن اس قید و بند میں کھانے کے لیے ترستا رہا۔ شیر اپنے جنگل میں محنت مشقت کرکے اپنا پیٹ پالتا ہے۔ قدرت نے اس دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ محنت کرنے والے آخر کار کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ چاہیے شکار ہو یا شکاری محنت اور لگن میں ہی اس دنیا میں بقا، سلامتی اور کامرانی کا راز پوشیدہ ہے۔ شکار اگر مشقت نہ اٹھائے تو شکار ہو جائے اور شکاری اگر مشقت نہ کرے تو بھوکا مرجائے۔
قید میں شکاری شکار سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ حالات کا ایک بے بس غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ مرجان اس قید میں شکاریوں کا شہنشاہ ہو کر بھی بے بس ہوکر رہ گیا۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ دو نوجوان دوست مرجان کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کے پاس آگئے۔ وہ بہت دیر تک اس کو دیکھتے رہے پھر اچانک انہوں نے ایک دوسرے سے شرط لگائی کہ کون اس شیر کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر آئے گا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے ایک نوجوان اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے مرجان کے احاطے میں داخل ہوا۔
بھوک تو انسان کو بھی درندہ بنا سکتی ہے جس کی فطرت میں ہی درندگی ہو اس سے انصاف کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ مرجان نے اس نوجوان کو چند منٹوں میں ہی ہڈیوں سمیت چبا کر نگل لیا۔ یہ سب واقع اس کے دوست کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا۔ اس کا خون کھول اٹھا اور بدلے کی آگ میں وہ جلنے لگا۔ وہ نوجوان کسی اور ملک میں ہوتا تو شاید اسے بدلہ لینے کا کوئی موقع نہ ملتا لیکن جہاں وہ تھا وہاں بدلے کی آگ نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ فرد، قبیلے اور گروہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور ایک دوسرے کو مارتے رہے اور ایک دوسرے سے بدلہ لیتے رہے۔ کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی غیرت کے نام پر لوگ ایک دوسرے کو مارتے رہے اور وہ جنگ جاری رہی جو سب کی سب سے اور سب کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس چین ریکشن نے اس ملک کو ہمیشہ تباہی کے دہانے پر قائم رکھا۔ اس نوجوان نے کچھ دن بعد ایک گرینیڈ کہیں سے لایا اور پن نکال کر مرجان کے آگے پھینک دیا۔ بھوک ایک جاندار کو اندھا بنادیتی ہے۔ یہ اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی چھن لیتی ہے۔ مرجان نے اس گرنیٹ کو کھانا سمجھ کر اپنے منہ میں بھر لیا اور اسے بے صبری سے چبانے لگا۔ گرنیٹ پھٹا اور شیر کا منہ لہو لہان ہوکر رہ گیا۔ نوجوان چاہتا تھا کہ مرجان تڑپ تڑپ کر مرجائے مگر مرجان اس قید و بند میں تڑپا لیکن مرا نہیں۔ وہ زخموں سے اور بھوک سے تڑپتا رہا اور موت کو ترستا رہا۔ پھر آخر کار جمہوریت کے لبرل علم برداروں نے افغانستان کو پہلے کیمونسٹ غلامی سے آزاد کرنے کے لئے ایک فوج تیار کی اور اس ملک پر ایک اور جنگ مسلط کردی اور جب وہ فوج بے لگام ہوکر ملک پر قابض ہوئی تو ان سے ملک کو آزاد کرنے کے لئے پھر جنگ چھیڑی گئی اور اس جنگ میں ہزاروں ٹن بم برسائے گئے جن کی زد میں آکر خس وخاشاک فنا ہوئے اور انہی بموں میں سے کئی بم اس چڑیا گھر پر بھی گرے۔ اس کے تمام دیگر جانور ایک ایک کرکے مارے گئے۔ اگر کوئی بد قسمت زندہ رہا تو وہ تھا مرجان۔
مرجان جس نے موت کے لئے دعا نہ کی اور اپنے دشمنوں کو بددعا نہ دی، جس نے درد و کرب پیدا کرنے والے زخموں کی تاب لاکر بھی زندہ رہنے کی انتھک کوشش کرکے یہ ثابت کیا کہ ہر جاندار کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں اس کا سب سے پہلا فرض بس زندہ رہنا ہے مگر آخر کار وہ بھوک کی تاب نہ لا کر اسی قید میں چل بسا۔
���
ہردوشورہ کنزر، ٹنگمرگ، بارہمولہ کشمیر