دقیانوسیت سے تہذیب کی طرف کشمیریوں کی پیش قدمی میں کسی سائینسی انقلاب یا بیرونی ثقافتی یلغار کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سب اسلامی مشنری سرگرمیوں کا ہی ثمرہ ہے۔کشمیریوں کو توہم پرستی، خدابیزاری، نحوست یا بخل و کسل جیسے رزائل سے نجات دلانے میں اگر کسی نے پہل کی تو وہ یہاں کے ولی اللہ تھے یا وہی لوگ تھے جو مشرق وسطیٰ سے کشمیر وارد ہوئے اوریہاں ایک رُوحانی انقلاب برپا کردیا۔اِن میں کشمیری الاصل شیخ نورالدین اور ہمدان کے سید میر علی دو بڑے نام ہیں۔ان حضرات نے کشمیریوں کو دنیوی اور اُخروی زندگی کے اُس شاکلہ سے ہم آہنگ کردیا جس سے وہ صدیوں سے نابلد تھے۔یہ گویا اُسی انقلاب کی دوسری قسط تھی جو صحرائے عرب میں پیغمبر آخرالزماں ﷺ نے ساتویں صدی عیسویں میں برپا کردیا تھا۔شاہِ ہمدان اوران کے پیروکاروں تک جو بھی خدادوست حضرات کشمیر کی دھرتی پر وارد ہوئے انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ کشمیریوں کا فکری سفر تہذیب کی راہ پر گامزن کردیا۔
لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔مثال کے طور پر اُس دور میں جب کسی بزرگ کو کسی کو یہ باور کرانا ہوتا کہ بالوں کو درست کرنا ضروری ہے، تو وہ یوں کہہ دیتے کہ جب بال کھردُرے ہوں او رضرورت سے زیادہ لمبے ہوں تو ہر اضافی بال میں سو شیطان چھپ جاتے ہیں۔دراصل خدا اور شیطان کے امتیاز کو اس قدر قومی ضمیر میں جاگزیں کیا گیا تھا کہ یہ سنتے ہی کشمیری پہلی فرصت میں بال درست کرتے تھے۔اسی طرح سماجی برائیوں کو محدود کرنے کے لئے یہ کہا گیا کہ شام ڈھلے خواتین بال سنوار نہیں سکتیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُن پر شیطان کا سایہ حاوی ہوجاتا ہے۔ اس بات پر سات صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی میری والدہ گھر کی بہو بیٹیوں کو مغرب کی اذان کے بعد بالوں میں کنگھی کرنے سے روکتی ہیں، حالانکہ وہی وقت ہے جو انہیں اس تیز رفتار زندگی میں اپنے لئے میسر آتا ہے۔رسوئی میں ناخن کاٹنے پر آج بھی ہمارے بڑھے ـ’’گناہ ‘‘کا فتویٰ صادر کردیتے ہیں، کیونکہ بزرگوں نے ایسا کہا تھا۔
دراصل جب کشمیر میں اسلام کی روشنی پھیلی، عوام بے خبر ہی نہیں منطق سے بھی بے بہرہ تھی۔ ایسی قوم کو طہارۃ ، حیا اور حفظان صحت کے اصول نرے منطقی انداز میں سمجھانا مشکل تھا۔ اندازہ کریں کہ نہ گُوگل تھا، نہ انٹرنیٹ اور نہ علم اور ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کی تھی۔ کشمیر کو اسلام کے نور سے منور کرنے والے بزرگوں کو معلوم تھا کہ بالوں اور داڑھی کا تُرشوانا طہارۃ کا تقاضا ہے ، رسوئی میں ناخن کاٹنے میں خدشہ ہے کہ کوئی ناخن خوراک میں نہ جا گرے اور شام ڈھلے کوئی عورت بال کھول دے تو کسی کی نیت خراب نہ ہوجائے۔ لیکن ان بزرگوں نے براہ راست منطق یا براہ راست شرعی قوانین یا تعزیرات کی بجائے لوگوں کی نفسیات کو ایڈریس کیا۔ کیونکہ لوگ اُسوقت صرف خدااور شیطان کا مطلب سمجھتے تھے اور صرف گناہ اور ثواب میں امتیاز کرپاتے تھے۔انہیں شریعت کے باریک اصولوں کا علم نہیں تھا اور وہ آبا ٔو اجداد سے چلی آرہی روایات کویکایک ترک نہیں کرسکتے تھے۔
یہاں اسلام کا نور پھیلانے والوں نے سیرت محمدﷺ سے دینی اور اخلاقی اقدار کو اخذ کرکے اپنے عمل اور تدابیر کے ذریعہ قوم کے اجتماعی ضمیر میں گھول دیا تھا۔لیکن جب یہ سب ہورہا تھا تب اسلام ایک ’’فیڈرل آئیڈیا‘‘ تھا۔سات صدیوں کے اس سفر میں ہم صرف گزشتہ پچاس سال کا محاسبہ کریں تو تقابل بہت پھیکا پھیکا لگتا ہے۔
اُسوقت کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ بھئی میرے مولوی نے تو ایسا یا ویسا کہا، میں کیوں آپ کی سنوں؟ بنیادی اقدار اور ضوابط پر گویا ایک اجماع تھا۔یہ یونہی نہیں ہے کہ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ پہلے دیانت داری مین سٹریم قدر تھی اور آج کوئی دیانت دار مل جائے تو گویا فرشتے کے دیدار ہوجاتے ہیں۔بعد میں گروہ بندی ہوئی اور اسلامی اصول و ضوابط پر سب نے جیسے کاپی رائٹ حاصل کرلیا۔ شرک اور توحید کی تعبیر الگ الگ، جنتی اورجہنمی کی اہلیت علیحدہ علیحدہ ، حق اور باطل کا معیار جدا جدا،اور گناہ اور ثواب کے ضوابط متضاد۔
گزشتہ نصف صدی کے دوران کشمیرمیں گو بنیادی دینی اقدار کو خوب فروغ ملا، مگر متوازی افکار کی مقابلہ آرائی کے اکھاڑے اُبھرے اور قوم کا اجتماعی ضمیر کچھ اس طرح پروان چڑھا کہ جیسے اس نے بھانپ لیا ہو کہ باقی سب تو ٹھیک ہے ، اپنا مفاد محفوظ کرلیجئے باقی جس فکر کا غلبہ ہے اس کا مکھوٹھا پہن لیجئے۔اس طرح جو رویئے پروان چڑھے ان کی خمیر میں ذاتی مفاد کا دفاع ، تصنوع پسندی اور ہر قبیح کام پر مذہب کی ملمع سازی کا رُجحان تھا۔ ستم یہ ہے کہ آج کے بیشتر مولوی حضرات اسی کا رونا بھی روتے ہیں اور اسی بحر کی موجوں پر سوار ہوکر اپنی شہرت اور ترقی کا سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر ٹھیٹ سائنسی بنیادوں پر ایک سروے کیا جائے، اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا دُکاندار اپنی تجارت میں دیانتدار ہے، کیا کاریگر ایمانداری سے کام کرتا ہے، کیا ریستواران کا مالک یہ نہیں جانتا کہ پکوانوں میں ممنوع MSGیعنی مونو سوڈیم گلوٹمیٹ یعنی ذایقہ بڑھانے کا مہلک کمیکل ملایا جاتا ہے، کیا ادنیٰ درجہ کا افسر یہ نہیں جانتا کہ وہ جس شخص سے چند ہزار روپے رشوت لے رہا ہے وہ اُس نے کسی اور سے رشوت لے کر یا بددیانتی کرکے حاصل کئے ہیں، کیا سرکاری سکول میں پڑھانے والا اُستاد یا اُستانی نہیں جانتے کہ وہ بچوں کو ذاتی کہانیا ں سنا تے ہوئے ٹرخا کر انہیں کوچنگ سینٹروں کی قتل گاہ کی نذر کررہے ہیں، کیا سیاستدان نہیں جانتا کہ وہ چند ٹھیکوں یا چند ارب روپیوں کی خاطر قوم کو بیچ رہا ہے، کیا ایک مقرر یا کالم نویس نہیں جانتا کہ وہ الفاظ کا جھول دے کر اپنے آقاؤں کی تنخواہ حلا ل کررہا ہے ،کیا مذہبی امور پر منہ میں جھاگ جما کر تقریر کرنے والا نہیں جانتا کہ لمبی داڑھی اور عربی عطر ملنے والے بیکری کے صنعت کار سڑے انڈوں کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ سبھی حضرات وعظ و تبلیغ کی محفلوں میں نہ صرف پیش پیش بلکہ بسااوقات ان محافل کے سپانسر ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے مبلغین کن سے مخاطب ہیں؟ یہ قوم قوم کا رونا تو روتے ہیں، لیکن مخاطب کوئی خیالی مخلوق ہے، کیونکہ جو لوگ ان کے سامنے ہیں وہ ان کے حُسن موعظ کا صرف حظ اُٹھا کر ان کا آشیر واد حاصل کرتے ہیں تاکہ معاشرے کوبھنک نہ پڑے کہ یہی تو اصل گناہ گار ہیں جو لوگوں کو زہر کھلا رہے ہیں یا لوگوںکے حقوق پر شب خون مار رہے ہیں یا لوگوں کو جھوٹ اور فریب کے ذریعہ ان کی جیبیں صاف کرتے ہیں۔
دراصل مذہبی حلقوں نے اپنا سارا زور عقائد کی تشہیر پر دیا ، حالانکہ عقائد کو قومی ضمیر میں گھولنا پڑتا ہے اور اس کام میں انسان کو اس سے زیادہ مشکلات درپیش ہونگی جو پیغمبروں کوپیش آئی تھیں۔ لیکن آج کا مسلمان تاریخ کے منور ترین دور میںرہتا ہے، وہ علم کی روشنی میں رہتا ہے، عقائد کے معاملے میں وہ صرف ایک کلک سے اپنے مراجع سے اطمینان حاصل کرسکتا ہے۔مبلغین اور واعظین سے توقعہ ہے کہ وہ اعتراف کرلیں کہ اگر سات دہائیوں میں بھی قوم بنیادی اقدارکی طرف مائل نہ ہوپائی توبرسہابرس تک کانوں کوبہرہ کرنے والے وعظ و پند کا متن یا تو غیر متعلق تھا یا اس متن کا اظہار ناقص ۔ اگر لوگوں میں بنیادی اقدار کا فقدان ہے تو مذہب اور مذہبیت کے نام پر یہ شور شرابہ کیوں؟ کیا اسلام اور شریعت کے خود ساختہ محافظین کا محاسبہ ممکن ہے، اگر ہے توسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مذہبی طبقے کا آڈِٹ یا محاسبہ کون کرے گا؟
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر