میں نے سورج کے گرد آج پورے پچاس چکر مکمل کئے۔ ماں کی کوکھ سے تصورات کے سمندر تک کا سفر میرے لئے بہت ہی کٹھن تھا۔ تصورات کے سمندر میں مجھے پہلی بار بوڑھے آسمان کے ساتھ مذاکراہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے بوڑھے آسمان سے کچھ سوالات پوچھے جن کے جواب اُس نے بہت ہی خوش اسلوبی سے دئے۔!
راوی: حضور آپ کی عمر کتنی ہوگی؟
بوڑھا آسمان: کم و بیش 22 ارب سال۔
راوی: جناب اس لمبی عمر میں آپ نے کیا کچھ دیکھا؟
بوڑھا آسمان: بہت کچھ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل! ، یاجوج ماجوج کا ظلم، ذوالقرنین کا عدل، نمرود کی جھوٹی خُدائی، فرعون کی گمراہی، اَبرھ اور اُس کے فوج پر اَبابیلوں کی یلغار، قیصر و کسریٰ کا عروج و زوال اور ۔۔۔ بہت کچھ۔
راوی: جناب! کوئی متاثر کُن واقعہ سنائیے۔
بوڑھا آسمان: ضرور۔ جب آخری پیغمبر نبیؐ برحق کے پایۂ نازنین میرے سینے پر پڑے!
راوی: آپ کب مسرت محسوس کرتے ہیں؟
بوڑھا آسمان: مخلوقات کی خوشی اور مسرت کو دیکھکر۔
راوی: جناب! آپ اُداس کب ہوتے ہیں؟
بوڑھا آسمان: جب دھرتی کے مخلوقات پر ظُلم ڑھایا جاتا ہے۔
راوی: جناب ! میں سمجھا نہیں۔
بوڑھا آسمان: جب کسی ماں کا بیٹا اُس سے چھینا جاتا ہے۔ جب کسی بے گناہ کا قتل ہوجاتا ہے۔۔۔ جب مظلوم کے منہ سے آہ نکلتی ہے۔
راوی: میرا کشمیر صحرا کیسے بنا؟
بوڑھا آسمان: جب سے مین پتھر بناہوں!
راوی: مطلب!؟
بوڈھا آسمان: مُجھے دراصل سبزہ زاروں، آبشاروں، رقص کرتے ہوئے ہرئے ندی نالوں، سرسبز باغات اور بزرگ چناروں کی یادیں ستا رہی ہیں۔ ظالموں نے قدرت کے ان حسین تحفوں کو اپنے حقیر مُفادات کی خاطر اُجاڑا۔دیکھتے ہی دیکھے وادی کے حسین چمن زار صحرا بن گئے!۔ یہاں کی جھیلیں سکڑ سمٹ رہی ہیں۔ خود غرض لوگوں نے قدرتی چشموں کو منہدم کر دیا۔لہلہاتے کھیتوں میں اونچے اونچے محل تعمیر ہورہے ہیں! جنگلات کا بے تحاشا کٹاو جاری ہے! جنگلی مخلوقات کا مسکن اُجڑ رہا ہے! بے چارے وحشی جانور اب بستیوں کا رُخ کر رہے ہیں! خود غرض انسان نے اُن کو بھی نہیں بخشا۔ اس پر طرہ کہ جب کوئی انسان شیر یا ریچھ پر حملہ کرتا ہے تو بہادر کہلاتا ہے اور اگر کوئی وحشی شیر، چیتا یا ریچھ اپنے دفاع میں انسان پر چڑھ دوڑے تو وحشی درندہ کہلاتا ہے!
راوی : جناب! دھرتی ماں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔
بوڑھا آسمان: بے رحم انسان نے اس کو اپنی ناپاک سوچ سے داغدار کر دیا!۔
راوی: جناب ۔ ابنِ آدم کے لئے سب سے بڑا امتحان کیا ہے؟۔
بوڑھا آسمان: جوان بیٹے کا جنازہ بوڑھے باپ کے کندھوں پر!۔
مذاکرہ ہنوز جاری تھا لیکن مؤزن کی سریلی آواز نے مُجھے جگادیا۔ میں نے کھڑکی واکی۔ چاند آسمان پر آہستہ خرامی سے منزل کی طرف بڑھا رہا تھا۔ میرے آنگن میں اوس کے خوبصورت قطرے محوِ رقص تھے۔ نیم سحری گنگنا رہی تھی۔
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
9906534724