نئی دہلی //بری فوج کے سربراہ جنرل بپن راوَت نے کہا ہے کہ بات چیت کیلئے مذاکرات کار کی تقرری سے فوج کی جنگجو مخالف کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نئی دلی میں ایک سیمینار سے خطاب کے دوران بپن راوت نے کہا کہ مذاکرات کار کی نامزدگی سے وادی کشمیر کے اندر فوجی آپریشنز اثر انداز نہیں ہونگے۔جنرل راوَت کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی حالیہ پالیسی مذاکرات کیلئے ماحول تیار کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’حکومت کی حکمت عملی کام کرگئی ہے ، ہم کشمیر کے بارے میں ایک مضبوط پوزیشن پر مذاکرات شروع کرنے جارہے ہیں، گزشتہ چند مہینوں کے دوران صورتحال میں واضح بہتری واقع ہوئی ہے اور دراندازی میں بھی کمی آئی ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’جنوری میں آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا وادی کے حالات خراب ہوئے ہیں؟کیا ہم نے کشمیر کھو دیا ہے؟اب آپ ہی بتایئے کہ آج کشمیر کہاں ہے؟‘‘ان کا کہنا تھا’’ہم نے دہشت گردوں کو لائن آف کنٹرول پر ہلاک کیا ہے اور اسی وجہ سے حالات بہتر ہوئے ہیں‘‘۔ فوجی سربراہ نے مرکزی سرکار کی طرف سے کشمیر میں جامع بات چیت کیلئے مذاکرات کار کی تقرری کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا’’ حکومت نے ان کی تقرری عمل میں لائی ہے ، انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے ، اس سے فوجی کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، میرا ایک ہی لفظ کا جواب ہے کہ جی نہیں !ایسا نہیں ہوگا‘‘۔جنرل راوَت نے اپنی تقریر کے دوران خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ جنگجو اوڑی جیسے مزید حملے انجام دینے کی تیاریاں کررہے ہیں۔فوجی سربراہ نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا’’اندرونی علاقوں میں حفاظتی تنصیبات کی حفاظت فکری مندی کا باعث بن رہی ہے جبکہ کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحدوں پر واقع علاقوں میں دہشت گردوں کے خطرات مسلسل موجود ہیں۔