سرینگر//مرکزی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال نے کہا ہے کہ مذاکرات کاری کو بچوں کا کھیل نہ بنایا جائے اور مزاحمتی قیادت و دیگر سیاسی جماعتوں نیز حقیقی نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ راہ چلنے والوں ،نت نئی تنظیمیں اور د انجمنوں و وفود کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا مقصد صرف اور صرف کنفیوژن پیدا کرنا ہے نہ کہ حقیقی مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالنا۔ پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی عہدیداروں اور کارکناں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معاون جنرل سکریٹری نے کہا کہ اگر مرکزی سرکار واقعی سنجیدہ اور پُرخلوص ہے تو اسے دنیشور شرما کو بھیجنے کے بجائے سابق کمیٹیوں، ڈیلی گیشنوں، ورکنگ گروپوں اور مذاکراتکاروں کے رپورٹوں کا مطالعہ کرکے کوئی فیصلہ لینا چاہئے تھا۔ شری این این ووہرا، جو آج ریاست کے گورنر ہیں، بھی کشمیر میں مذاکرات کار کی حیثیت سے آئے ہیں، ہندوستان کے سابق نائب صدر حامد انصاری نے بھی یہاں کے لوگوں کی رائے لی ہے، دلیپ پڑگاﺅنکر کی سربراہی والی 3رکنی کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ پیش کی ہے، متعدد بار پارلیمانی اراکین کے وفود نے یہاں آکر تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول تمام علیحدگی پسندوں کیساتھ ملاقات کی ، اس کے علاوہ بھی کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن سب بے سود ۔ ان رپورٹوں اور سفارشات پر متواتر مرکزی حکومتوں نے کوئی بھی عملدرآمد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی طرف سے مذاکرات کار کی نمائندگی صرف اور صرف گجرات اور ہماچل میں ہونے والے الیکشن میں اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے ۔ اگر مرکزی سرکار واقعی سنجیدہ ہوتی تو وہ سابق گروپوں کی سفارشات اور رپورٹوں میں سے معقول اور مناسب سفارشات پر عمل درآمد کرتی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ دہائیوں سے لٹکا ہو اہے اور یہ مسئلہ لٹکے رہنے سے کشمیری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔ اس وقت بھی لوگ مررہے ہیں، جیلوں میں قیدیوں کی حالت خراب ہے، ماردھارڈ، شبانہ چھاپے جاری ہیں۔ 1990کی دہائی میں ہونے والے کریک ڈاﺅنوں سے بھی وسیع محاصرے کئے جارہے ہیں اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے اب ان محاصروں کا نام تبدیل کرکے CASO’‘رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کش ثابت ہوئی ہے جبکہ پی ڈی پی وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی مختلف اضلاع میں جاکر فوٹو سیشن کروانے میں مصروف ہیں۔