آج سے دوروز پہلے ۶؍ نومبر کو جب دلی کے مذاکرات کار سابق آئی بی سربراہ دنیشور شرما کی سری نگر میں ’’گھر واپسی‘‘ ہوئی تو جہاں حکومتی حلقوں نے ان کی آمدکشمیر پرخوش آمدید کہی ، وہیں عوامی حلقے اور مزاحمتی قیادت اس عمل کو لاحاصل اور تضیع اوقات سے تعبیر کر کے نئے مذاکرات کار سے فی الحال دوری بنا ہوئے ہیں ۔ آثار وقرائن سے لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی اس حوالے سے کسی ڈرامائی پیش قدمی کی توقع نہیں ۔ مسٹر شرما کو اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق وادی میں تین دن اور جموں میں دو دن قیام کرنا ہے۔ اس دوران وہ جن لوگوں سے ملیں گے ، آیا اُن سے برف پگھلے گی یا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟ ا س بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ موصوف کی پوزیشن کیا ہے؟ انہوں نے کسی چمتکار کو بعیداز امکان قرار دیتے ہوئے صاف کیا کہ ا ن کے پاس کوئی چھڑی نہیں ۔ بہر کیف مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے دنیشور شرما کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کار قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ انہیں اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کا کلی اختیار ہوگالیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگلے ہی روز مرکزی کابینہ کے اُن کے ایک سینئر ساتھی نے علی ا لاعلان کہا کہ دنیشور شرما مذاکرات کار نہیں بلکہ مرکز کے نمائندہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی لامحدود اختیارات رکھتے ہیں نہ کو ئی اہم فیصلہ لینے کی قوت کے حامل ہیں بلکہ انہیں دلی کی ترجمانی کے دائرے میں خودکو محدود رکھنا ہوگا ۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوا کہ انہیں کوئی ایسی بات کرنے یا کہنے کی قطعی اجازت نہیں ہوسکتی جو مرکز کے ایجنڈے یا مقاصد وپالیسی سے میل نہ کھاتی ہو ۔ خودانہوںنے اپنے مشن کشمیرکے بارے میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ان کی اولین ترجیح امن کی بحالی ہے۔ بالفاظ دیگر کشمیر حل کا کوئی سیاسی ایجنڈا اُن کے زیر نظر نہیں بلکہ وہ اس ناسور زدہ مسئلہ کو لا اینڈ آرڈر کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں ، حالانکہ امن و قانون کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے پولیس سمیت فوج اور پیرا ملٹری فورسز یہاں پوری قوت کے ساتھ کام کرر ہی ہیں ۔ اورسوال یہ ہے کہ جب یہ کام شد ومد سے ہورہاہے تو دلی کا اس کے لئے الگ سے نمائندے کا تقرر کرنا
کیامعنی رکھتا ہے ؟ یہاں یہ نقطہ بھی غور طلب ہے کہ سابقہ کانگریسی عہد حکومت کے وزیر خزانہ پی چدمبرم نے جب اس نئی تقرری کے حوالے سے مر کزی سرکار سے یہ بے ضرر مطالبہ کہ ریاست کو اٹونومی دی جائے جو بالفاظ دیگر ریاست کے بارے میں آئین ِ ہند کی اوریجنل پوزیشن کی بحالی کانام ہی ہے تو بھاجپا اس پر تلملا اُٹھی۔ یہ تیکھا ردعمل دیکھ کر متحدہ مزاحمتی قیادت نے دلی کی مذاکراتی پہل پر بالمعنیٰ یہ سٹینڈ لیا کہ جب مرکز اٹونومی ( جو حریت کی کبھی ڈیمانڈ رہی نہ اب ہے ) کو بھی نکارے تو بے شک نئے مذاکرات کار کے ہاتھ خالی ہیں ۔ تاہم اب کی بار قیادت نے الل ٹپ مکالمہ آرائی کو مسترد نہ کیا بلکہ تھوڑی دیر حالات کی اٹھک بیٹھک کا جائزہ لے کر اپنا بیان جاری کیا ۔
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ کشمیر کے تعلق سے بھارت سرکار اور حریت کانفرنس سیاسی موقف روایتاًدو متوازی دھاروں کے مانند ہیں جن میں کوئی میٹنگ گراؤنڈ یا مڈ وے پاتھ نکالاجانا کارے دارد والا معاملہ ہے ۔ حریت کا موقف ہے کہ مسئلے کا حل سلامتی کونسل کی قرار دادوں یا سہ فریقی بات چیت سے عوامی خواہشات کے مطابق نکل سکتا ہے بشرطیکہ یہ سیاسی حل نہ صرف پُر امن ہو بلکہ منصفانہ ا ور آبرو مندانہ ہو ۔اس کے برعکس بھارت اپنے اٹوٹ اَنگ پر قائم ہے اور وی پی سنگھ کے دور اقتدار میں منظور شدہ پارلیمانی قراراداد کی روشنی میں’’آزاد کشمیر‘‘ کی واپسی کی منتظر ہے۔ اس لئے مبصرین یہی قیاس کر تے ہیں کہ ان متضاد مواقف کے بیچ دلی کا ایلچی ماضی کی طرح پھر ایک بار مین سٹریم پارٹیوں ، غیر معروف اور غیر متعلقہ لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں اور فوٹو سیشن کے بعد واپس دلی پہنچیں گے ۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ان ٹھوس حقائق کے باوجود مجوزہ بات چیت کی کامیابی کا ایک روشن امکان پیدا ہوسکتا تھا اگر اول کشمیر میں زمینی سطح پر دلی کے تئیں احساس بیگانگی اور بے اعتمادی کافور کر نے کے لئےconfidence building measures اُٹھائے جاتے اور اسلام باد کے ساتھ بھی سلسلہ ٔ جنبانی شروع کیا جاتا لیکن اس کے برخلاف جب بھاجپا سرکار سارے بھارت کی تاریخ ، ثقافت ، تمدن اور گنگا جمنی تہذیب کے طویل دور کی نفی کر کے ہندوتا کے ذریعے اس سیکولر ملک کو ہند وراشٹر بنانے پر بضد ہو تو کشمیر میں اس کی امن پہل کو کون سنجیدگی سے لے گا؟ اس پر ستم یہ کہ جب یہاں ہر صبح ایک نئے درد و کرب کی داستان کے ساتھ طلوع اور ہر شام نئی خون ریزیوں کو پیچھے چھوڑ کر ڈھل جاتی ہو تو کبوتر کی چونچ میں ہی شاخ ِ زیتون کا مرجھا جانا شاید طے ہے۔ خیر کسی بھی مفاہمتی ومصالحتی مشن کی کامیابی کے سلسلے میں کشمیر میں حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سب سے پہلے زور زبردستی ، دھونس دباؤ، بیلٹ پیلٹ ،لاٹھی ، جیل اور طاقت کے بے تحاشہ استعمال کو روکا جائے ا ور مضطرب عوام کی بصدق دل سنی جائے ۔ا س ضمن میں اگر عزم وہمت ہو تو واجپائی دور کی طرح فریقین جنگ بندی کا نسخہ بھی آزما سکتے ہیں۔
ایک تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ریاست کی سب سے بڑی علاقائی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس جو الحاق کو حتمی سمجھتی ہے اور جس کے بانیوں نے ۷۵، کے ایکارڈ کے مابعد اس کی توثیق کر نے میں کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا،اس نے دلی کے انٹرلوکیوٹر کی تقرری پر یہ تجویز دی کہ بہتر ہے کہ مرکز کو پڈ گاونکر کمیٹی کی رپورٹ جو وزارت داخلہ کو پیش کی گئی تھی، کو تہہ خانوں سے نکال کرپارلیمنٹ میں پیش کرے اور ورکنگ گروپوں کی سفارشات پر بھی غور وفکر کر ے۔ بالفاظ دیگر این سی کہہ رہی ہے نئی دوائی خرید لینے کی ضرورت ہی کیا ہے جب پہلے ہی دوائیاں آپ کے سٹاک میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ نیشنل کانفرنس مسئلہ کشمیر کا حل آئین ہند کے تحت اٹانومی میں مضمرسمجھتی ہے۔ اس جماعت کی بالائی قیادت کو اس بات کا بھی زبردست قلق ہے کہ مرکز ر یاست کی سلب شدہ اندرونی خود مختاری کی مانگ کو بھی بغاوت اور ملکی سا لمیت کے خلاف تصور کرتی ہے ۔این سی نے گریٹر اٹونومی کے وعدسے ۹۶ء میں اقتدار سنبھالا مگر اسے ٹھینگا دکھایا گیا اور جب اس نے ریاستی قانون سازیہ میں اکثریتی رائے سے پاس شدہ اٹونومی قرارد مرکز میں اپنے سیاسی ساجھے دار بھاجپا کو بڑی ا میدوں کے ساتھ ارسال کی تو اُسے نہ صرف ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا بلکہ اس قرار داد کا لفافہ ایک بار کھول کر دیکھنے کے لئے مرکز میں کسی ایک ہاتھ میں بھی جنبش نہ ہوئی۔ مرکز سے یہ صلہ ملنے کے باوجود این سی نے واجپائی حکومت کی حمایت جاری رکھ کر کشمیری عوام میںا پنی مقبولت تک کو داؤ پر لگا دیا ۔ بہر حال آج کی تاریخ میں میرے خیال میں سلب شدہ اٹونومی کو یہ پارٹی محض ووٹ بینک کے سوا اور کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔
چوتھا نقطہ یہ ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی پی ڈی پی نے بی جے پی سے ہاتھ ملا یا اور دونوں نے کم ازکم پروگرام کے نام پر ایک ’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ بھی ضبط تحریر میں لایا ۔اس دستاویز کی رُو سے کئی متنازعہ امور پر دونوں جماعتوں نے بیچ کی راہ پر اتفاق کیا تھا ، ان میں دفعہ ۳۷۰ ؍ کی برقراری، مزاحمتی گروپوں سے بات چیت ، بجلی پروجیکٹوں کی بتدریج واپسی اور پاکستان کے ساتھ دوستی ا ور مفاہمت جیسی شقیں موجود ہیں مگر سرکار بننے کے بعد تا حال یہ’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ بھی اقتدار کے تہہ خانوں میں کہیں دُھول چاٹ رہا ہے بلکہ اس کے خلاف ایسی چیزیں حکومتی سر پرستی میں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جو بی جے پی کے لئے مفید اور پی ڈی پی کے لئے انتہائی غیر مفید ہیں ۔ ا گر مرکز اپنے سیاسی حلیف کو اتنا نیچا دکھائے تو عام لوگ کس کھاتے میں ہیں ؟
ان نقاط کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیشور شرما کا مشن اُن کے لئے ٹیڑھی کھیر ہے ۔ نیز کشمیر کے بحر کی موجوں سے ا ُس وقت تک کچھ بھی اُچھل نہیں سکتا جب تک تینوں فریق ایل کے ایڈوانی کے الفاظ میں کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر خلوص دل کے ساتھ متفق نہیں ہوتے ۔نئے رابطہ کار کی تقری کے موقع عام تاثر یہ دیا گیا کہ یہ وزیراعظم مودی کے ۱۵؍ اگست کو اُن کی لال قلعے والی تقریر کا تسلسل ہے جس میں انہوں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’نہ گولی سے نہ گالی سے کشمیر سمیا حل ہوگی کشمیر یوں کو گلے لگانے سے‘‘۔ اُس وقت اس وزن دار جملے کو یہ معنی پہنائے گئے کہ مرکز کو کشمیر کے بارے میں شاید اپنی سخت گیرانہ سوچ اور جارحانہ اپروچ کے مضرات کا اندازہ ہوچکا ہے ،اسے دھونس دباؤ ،گالی اور گولی جیسی چیزیں لاحاصل محسوس ہونے لگی ہیں ۔اگر مرکز اس سوچ کو سٹیٹ پالیسی میں پرو کر سنجیدگی سے کشمیر میں دُرست سمت میں اقدامات کر گیا ہوتا تو عوام کو ضرور یہ پیغام ملتا کہ اس بارمرکز کے نئے مذاکرات کار کا مشن کشمیر حل کے ذریعے قیامِ امن پر منتج ہوگا ۔ جب اس بات کا دور دور تک کوئی نشان نظر آئے تو دینشور شرما کی تگ ودَو کا ماحصل کچھ امید افزاء قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
بہر حال دو ر جدید میں دنیا کے اندر قدم قدم پر جنگ وجدل کے مہیب سائے پھیلے ہیں ، ملکوں اور قوموں میں تنازعات اور رسہ کشی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اوریہ تہذیب ِنوی کا سب سے بڑاا لمیہ ہے کہ انسان آسمانوں کی تسخیر کر رہاہے مگر اسے ابھی کرہ ٔ ارض پر چلنا نہیں آتا اور اسے عارضی ا ور حقیر مفادات کے لئے خون خرابے کا چسکہ لگا ہوا ہے ۔ا س پہلو سے سوچیئے تو گفت وشنید اور افہام وتفہیم کی ضرورت سے شاید ہی کوئی باؤلا ہی انکار کرسکے کیونکہ بات چیت کی نفی کی صورت میں پھر زورآور کے ہاتھوں کمزور کی تباہی کا واحد آپشن ہی بچتا ہے ۔ اس اصول کے ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کشمیر کی بات کریں تو یہاں حل کے بطن سے امن اور شانتی کشید کر نے کے لئے لازمی ہے کہ اوپردئے گئے نکات پر سوچ کی گاڑی کو مثبت انداز میں آگے بڑھا یا جائے ۔ سب سے اول یہ قدم ا ُ ٹھا یا جانا ناگزیر ہے جو نہ صرف مصیبت زدہ کشمیربلکہ ایک سو پچیس کروڑ بھارتی عوام اور حکومتی منصب داروں کے لئے بھی باعث سکون واطمینان ہوگا کہ اگر کشمیر دشمنی کے زہر میں گھلے الیکٹرانک میڈیااور پرنٹ میڈیا پر لگام کس دی جائے کیونکہ یہ رات دن کشمیری عوام کی تصویر مسخ کرنے اور کشمیر کے حالات کی غلط شبیہ پیش کر نے میں زمین وآسمان کے قلابے ملا کر جھوٹ کو بھی شرمندہ کر تے ہیں ۔ سفلی مفادات کے اسیر یہ چنل ہندوستان جیسے وشال دیش کی اتنی بڑی آبادی کواپنی بھونڈی سوچ کا قیدی بناکر کشمیر کے بارے میں ہر اچھی چیز کو چھپا دیتی ہیں اور ہر بری چیز اس سے منسوب کر تی پھر تی ہیں ۔ ان چنلوںکے منفی پروپگنڈے اور زہر افشانی کی طرف خود وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی کے کئی ایک منسٹروں نے بارہامرکز کی توجہ دلائی اور واضح کیا کہ اس بے تکے پروپگنڈے کے زبردست منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، جو کسی حال میں بھارت کے حق میں بھی نہیں لیکن بی جے پی کے نقار خانے میں ان معقول آوازوںاَن سنی کی جا تی رہی ہے۔ یہ تعصب زدہ ٹی وی چنل اس حد تک جاچکی ہیںکہ دلی کے اپنے نمائندہ کہئے یا مذاکرات کار بشمول مرکزی سرکار یہ مفت مشورے دی رہی ہیں کہ’’ پاکستان کے دلالوں‘‘ سے بات نہ کی جائے۔ کا ش یہ اپنے حافظے پر زور دیتیں تو یادآتا کہ اختلافات کے باوصف واجپئی جی بہ حیثیت وزیراعظم کس طر ح گاڑی چڑھ کر لاہور گئے ، مینار پاکستان پر حاضری دی اور ہمیشہ اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائی ۔ یہ الگ بات ہے کہ برصغیر میں امن کی صبح طلوع نہ ہونے دینے کے عالمی کھلاڑیوں نے دلی کی گاڑی کا رُخ کر گل کی طرف پھیرا مگر پھر بھی واجپائی نے امن و سکون کی چاہ میں صدر مشرف کو آگرہ تک بلایا ۔ خود مودی جی نے اپنے اُس وقت کے ہم منصب نوازشریف کو اپنی خلف وفاداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے کربرصغیر کے امن پسندوں ایک اچھا پیغام دیا بلکہ ایک موقع پر کابل سے لوٹتے ہوئے راولپنڈی جاکر نوازشریف کا برتھ ڈے تک کیک کاٹا، فرانس میں عالمی موسمیاتی کا نفرنس میں نزدیک آکر بے تکلفانہ دوستی کا آغاز کیا۔ اب اگر کشمیر میں دلی اپنا ٹھیک ہویا ناٹھیک نیا تجربہ کر رہی ہے، تو ان چنلوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ابھی سے اپنے زہریلے اندازِ گفتگو سے فضا کو زہر آلودہ کریں ؟ دلی کو چاہیے کہ اولین فرصت میں ان زبان دراز ، جذباتیت اور جھوٹ پھیلانے والی متعصب چنلوں کی گز بھر زبانیں بند کرے ۔
یہ بات بلاخوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ تنازعات کا حل ا ور اختلافات کا ازالہ صرف فریقین کے مذاکراتی عمل سے مشروط ہوتا ہے بشرطیکہ معاملہ مذاکرات برائے مذاکرات نہ ہو۔ مشترکہ مزاحمتی پلیٹ فارم شاید تازہ دم سرکاری ایلچی سے مذاکرات نہ کرے جو اس کے زاؤیہ نگاہ سے دُرست بھی لگتا ہو ، مگر اس کے باوجود مذاکرات اور افہام و تفہیم کے بغیر تینوں فریقوں کے لئے کوئی چارہ ہے نہ کوئی اور متبادل راستہ ۔ہاں ، بھارت سرکار کو دکھاوٹ اور تصنع سے پرے ہٹ کر اصل مسئلہ ایڈریس کرنے کی نیت سے نئی مذاکرات کاری کی میابی یقینی بنانے میں زمینی سطح پرمناسب راحت رساں اقدامات کرنے چاہئیںتاکہ حریت سمیت دوسرے سٹیک ہولڈرس کو اس بار ایسالگے کہ دلی کے پاس کشمیر حل کا کوئی نہ کوئی روڑ میپ ہے جو وہ اپنے حریف فریقوں کو سوودزیاں سے بالاتر ہو کر منوانا چاہتا ہے تاکہ برصغیر میںامن شانتی اور مفاہمت کی ڈور میں بندھ جائے ۔ بہرصورت ہماری یہ دعا ہونی چاہیے کہ دلی کی نیت چاہے کچھ بھی ہو، تاریخ اپنا کچھ ایسا معجزہ دکھائے یا اپنی جادوئی چھڑی گھمائے کہ دنیشور شرما جب کشمیر میں مصالحت کاری یا سننے سنانے کے مشن سے فارغ ہوں تو کشمیر کے دردسر سے تینوں فریق چھٹکارا دے جائیں تاکہ بشمول کشمیر سارا برصغیر خیرسگالی، تعمیر وترقی، نیک ہمسائیگی ا ور خوشحالی کا گہوارہ بنے۔ تاریخ جہاں ایسے حادثات کا آئینہ دکھاتی رہی ہے، وہاں یہ معجزات ہونا امکانات کی دنیا سے ماوراء نہیں ہے۔
فون نمبر9419514537
��������