مذاکرات سے فرار!!

Kashmir Uzma News Desk
16 Min Read
ہند پاک تعلقات میں تعطل اور جمود کی منفی کیفیت فی الو قت برقرار ہے اور دونو ں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات چیت کا کوئی امکان بصورت نظرنہیںآرہا ہے ۔ یہ بات ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال کی غماز ہے۔فی الوقت بھارت کشمیر تنازعہ کوعالمی دہشت گردی کا پیش خیمہ قرار دے کر بات چیت کو یہ کہتے ہوئے ٹال دیتا ہے کہ دہشت گردی کے ماحول میں مذاکرت کی بحالی ناممکن ہے۔ سچ یہ ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر میں ڈول ڈاکٹرین پالیسی پر ہی اکتفا کر کے کشمیر کی عوامی تحریک کو فوج اور فورسز کے دبدبے پر کچلنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے ۔اس کے سبب مسلح جنگجوؤں کے تئیں لوگوں کی ہمدردیاں نہ صرف بڑھ رہی ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جنگجوؤں کے صفوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ، جب کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجمو عی طورماحول انتہائی کشیدہ ہوتا جارہاہے ۔ گزشتہ دنوں15؍ماہ طویل وقفہ کے بعد وزیر اعظم ہند نریندرمودی اور اُن کے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے درمیان قزاقستان کے دارالحکومت آستھانہ میں چند لمحوں کی غیر رسمی ملاقات ہوئی جو صرف مصافحہ اور مزاج پُرسی تک ہی محدودرہی ۔ یہ ملاقات جو شیڈول نہیں تھی ،آستھانہ اورپیرا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس میں شرکت کے لئے آنے والے مختلف ممالک کے سربراہان کو خوش آمدید کہنے کے لیے منعقدہ تقریب کے پس منظر میںہوئی ۔ بھارت پاک وزرائے اعظم کی ایک دوسرے سے یہاں معمولی سی مڈبھیڑ ہوئی ۔ یہ دسمبر 2015 کے بعد پہلا موقع تھا جب دونوں رہنماؤں کا یوں آمنا سامنا ہوا۔ یاد رہے مئی 2016 میں نواز شریف نے ہارٹ سرجری سے قبل نریندر مودی کو فون کیا تھا جس میں بھارتی وزیر اعظم نے ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی تھی۔ قزاقستان میں ہندپاک وزرائے اعظم کے درمیان زیر بحث ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی جب دونوں ممالک کے تعلقات میں کشمیر کی بے قابو صورت حال، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے متواتر واقعات اور انڈین جاسوس کلبھوشن جادیو جیسے ایشو پر سے کشیدگی ا ور سرد مہری پائی جاتی ہے۔فی الوقت بھارت دنیا کو یہ تاثر دیتا جا رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر عالمی دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے ، حالانکہ ریاستی پو لیس کے ڈائریکٹر جنرل ایس پی وید نے کشمیر کے کسی بھی حصے میں آئی ایس آئی ایس کی موجودگی سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے کسی بھی کونے میں آئی ایس موجود نہیں۔ تاہم فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے ایسے افراد کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں کڑی سے کڑی سزا دینے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔ ریاست میں سرگرم مزاحمتی قیادت بھی کشمیر میں عالمی جہادی تنظیموںکی موجودگی سے صاف انکار کرتے ہوئے صاف کیا کہ کشمیر کاز کا ایسے گروپوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے ہی نہیں بلکہ یہ تحریک پوری طرح مقامی ہے ۔ عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے چیف سید صلاح الدین نے مئی کے شروع میں ہی حریت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں آئی ایس آئی ایس،القاعدہ اور طالبان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ کہ ہماری جدوجہد خالصتا ًمقامی ہے اوراس کا بین الاقوامی ایجنڈے سے کوئی انسلاک نہیں ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مسلٔہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جو تقریباً70سال سے حل طلب چلا آرہا ہے ۔قابل غور ہے کہ ہند پاک کشیدہ تعلقات کے زیادہ ترمضمرات براہِ راست کشمیر پر پڑتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ 3؍برسوں سے تعطل اور جمود کی صورت حال بنی ہوئی ہے جب کہ دو نوں ملک اپنا فوجی دبدبا قائم کرنے کے لئے سیکورٹی ایجنسیوں کی سالانہ بجٹ میں 10فیصد اضافی رقومات مختص رکھتے ہیں ۔
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پہلے ہی مرکز ی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کو سراہنے کے دوران پاکستان کے ایک قانونی آفیسر اس کے ریمارکس کے جواب میںکہ آیا پاکستان کشمیر مسئلہ کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائے گا ، سوارج نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہند پاک کے درمیان افہام و تفہیم کے ذریعے ہی تمام آپسی تنازعات کا حل ممکن ہے ،البتہ کشمیر میں دہشت گردی کے ماحول میں دو طرفہ مذاکرات کی بحالی ممکن نہیں ۔ بلاشبہ کشمیر کے متعلق دونوں ممالک کی خارجی پالیسیاں متصادم ہیں، تاہم فی الحال پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مودی حکومت نے ڈووال ڈاکٹرین اپنا کر اپنے آپ کوایک ایسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے جہاں بحالی ٔ مذاکرات تقریباّ ناممکن نظر آرہی ہے ۔ مبصرین کے مطابق تعطل و جمود کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ برصغیرکی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی رابطہ یا راہ و رسم نہ ہونا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بھی قابل اعتناء امر ہے کہ آر پارکشیدہ حالات کا نزلہ جس طرح ہمیشہ سرحدی علاقوںپر گرتا ہے ،ا سی طرح وادی میں فورسز کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی ہے تو کشمیر میں ہند نواز سیاست دانوں سے لے کر دلی کی سیاسی قیادت تک دکھاوے کے لئے بات چیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ مذاکرات کی یہ ڈفلی صرف میڈیا بیانات تک محدودرہتی ہے ۔ویسے بھی آج تک 150 بار سے زائدہندوستان اور پاکستان کے بیچ لاحاصل بات چیت کے راؤنڈ ہوئے مگر کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیںآیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان بات چیت سے پہلے اورمابعد جموں و کشمیر اپنا ’’ اٹوٹ انگ ‘‘ہونے کی رٹ لگاتاہے۔ اصولی طور مسئلے کا  مذاکراتی حل تب ہی ممکن ہے جب فریقین زمینی حقائق کو بہ دل وجان تسلیم کریں ۔ بایں ہمہ کچھ عالمی طاقتیں ہند و پاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر متفکر ہیں اور خود بھارت اندرونی سطح پر بھی بے چینی کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود نئی دلی کشمیر کے مذاکراتی حل کے سلسلے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہی ہے بلکہ  ہمیشہ دکھاوے سے کام چلاتی رہی ہے تاکہ وقتی طور عالمی دباؤ کی شدت کو کم کر کے اس مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹاسکے۔
 کشمیر میں فی الوقت کچھ سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ ہند پاک مذکراتی عمل میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں : اول مودی حکومت کا ڈول ڈاکٹرین پر عمل درآمد ۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ تم جتنا کشمیری عوام کودبائو گے وہ اتنا کمزور سے کمزور تر پڑکر تھک ہار جائیں گے ،دوم آر ایس ایس کا نظریاتی پس منظرہے۔ بنابریںبی جے پی پاکستان سے گفت وشنید سے گریزاں ہے اور کشمیر حل میں اہل کشمیر کی فریقانہ پوزیشن بوساطت حریت قبول نہ کر تے ہوئے اس مزاحمتی پلیٹ فارم سے بھی بات چیت کی روادارنہیں ۔ ان رکاوٹوں کاتجزیہ کیجئے تو یہ بات قابل فہم بنتی ہے کہ ماضی سے ہٹ کر فوجی سربراہ نے کیوں مطلعق العنانیت اختیار کر کے وادی میں احتجاجی مظاہرین پر راست گولی چلانے کے احکامات صدار کئے ، فوجی جیپ سے بندھے بیروہ کشمیرکے ایک عام شہری فاروق احمد ڈار کو عین پولنگ کے دن انسانی ڈھال بناکر قریہ قریہ گھمانے کا گھناؤناکھیل کیوںکھیلاگیا ، افسپا کے تحت قتل و غارت گری کو فروغ دیتے ہوئے فوج کو کیوں کھلی ڈھیل دی گئی ۔ قابل ذکر ہے کہ ان سخت گیرانہ اقدامات کے باوجود اصل گیم پلان کے علی ا لرغم ڈول ڈاکٹرین دلی کے لئے دلی کے گلے کی ہڈی ثابت ہورہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ڈول ڈاکٹرین کی نفی کر تے ہوئے برہان وانی کے جان بحق  ہونے کے بعد سے اب تک 67اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جو پی ایچ ڈی اور ماسٹرس ڈگری رکھتے ہیں ،نے بھی مجبوراً عسکریت کی صفوں میں شمولیت کر لی ہے ۔ واضح رہے کہ 2008اور2010ء بعد بھی ناگفتہ بہ حالات کے چلتے سینکڑوں نوجوان پے درپے جان بحق ہونے کے ردعمل میں عسکریت کو کشمیر میں توسیع وترویج ملی۔ کشمیر میں دلی کی سخت گیریت کا یہ ثمرہ ہی ہے کہ ۱۸؍جون کو چمئینز ٹرافی کے فائنل میں پاک ٹیم کی معرکتہ الاراء کارکردگی کے نتیجے میں ٹیم انڈیا کی ہار نے کشمیر کے طول وعرض میں خوشی کی بے انتہا لہر دوڑائی ۔شاید یہ ۴ا۲۰ ء کے سیلاب کے بعد پہلا موقع تھا جب لوگوں نے اجتماعی سطح پر بڑے پیمانے پر پاک ٹیم کی جیت پرجشن مناکر دلی کی آنکھیں کھول دیں ۔ 
اس میں دوارائے نہیں کہ مذاکرات سے فرار مسئلے کا کوئی حل نہیں بلکہ اس سے معاملات مزید تیکھے اور پیچیدہ تر ہونا طے ہے ۔ کلیدی اہمیت کے حامل کسی بھی مسئلے پر مخالف فریقوں کا آزادانہ طور اپناا پنا نقطہ نظر مذاکراتی میز پر ظاہر کر نے سے کوئی نہ کوئی بیچ کی راہ نہیں بھی نکل ہی جاتی ہے ۔ یہ اسی حقیقت کی صدائیء بازگشت تھی کہ اپنے وقت کے وزیراعظم ہند نر سمہا راؤ نے کشمیر کے حوالے سے آسمان کی حدتک جانے کی پیش کش کی، سخت گیر لال کشن ایڈوانی نے بہ حیثیت نائب وزیراعظم کشمیر حل کے لئے ’’کچھ لو کچھ دو ‘‘ کی تجویز رکھی اور اٹل بہاری باجپائی نے دلی کو کشمیر کے موضوع پر ’’لکیر کا فقیر‘‘ بننے سے پر ہیز کر نے کا عندیہ دیا۔ بہر کیف کوئی بھی مذاکراتی عمل اسی وقت ثمر بار ہوسکتا ہے جب جا نبین مسئلہ سے گلو خلاصی کی نیت دل ودماغ میں موجود ہو ۔  لہٰذااگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ برصغیر کے دو جوہری ہمسایوں کے لئے بقائے باہم ، امن و مفاہمت اور سرحدوں پرمحاذ آرائی ختم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اول جنگ کے مضمرات ہمیشہ ہر دوفریق کے لئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ،دوم کسی جنیون سیاسی مسئلے کو بندوق اور طاقت کے بل بوتے پر دبانا اور عام لوگوں کے جذبات اور جائز مطالبات کو زیادہ دیر تک نظرانداز کر نا سیاسی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے ۔ مزیدبرآں دلی کو خاص طور سمجھنا چاہیے کہ قیامِ امن کا مطلب فوج اور پولیس کے سامنے عوام کوزبان بندی پر مجبور کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی جمہوری نظام میں قیام امن سے مراد لوگوں کے جذبات اور احساسات کی قدر دانی میں تمام ممکنہ کاوشیں بروئے کا ر لانا ہوتاہے۔اس بناپر دیر سویر بھارتی حکومت کو خود اپنے مفاد میںڈائیلاگ ٹیبل پر آنے میں پہل کرنا ہوگی کیوںکہ یہی ایک واحد راستہ ہے جس سے کشمیر اور ایل اوسی پر مزید خون خرابے کا خاتمہ ہو گا ۔ سوال یہ ہے کہ دلی جب ناگا عسکریوں کے ساتھ بات چیت کر کے ناگالینڈ میں امن معاہدے پر دستخط کر سکتی ہے ، اُلفا باغیوں کو زیر زمین سے بالائے زمین لاسکتی ہے تواسے اسلام آباد کے بشمول کشمیر میں سبھی متعلقین کے ساتھ بات چیت میں کاہے کا خوف محسوس ہوتا ہے؟ یہاںیہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ڈائیلاگ پروسس سے یک لخت مسائل حل بھی نہیں ہوں تاہم مذکراتی عمل سے دو فریقوں کے درمیان کم ا زکم افہام وتفہیم کا پل تعمیر توہوتا ہے جس سے شکوک کی کھیتی میں مزید غلط فہمیوں کی جاڑ جھنکاڑ اُگ آنا سے رُک جاتا ہے،تنازعات کی تلخیاں اور کشیدگیاں کم ہونے میں مدد ملتی ہے جوبالآخر فریقین کے لئے پیچیدہ سے پیچیدہ تر مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ اگر مودی حکومت واقعی ’’اچھے دن‘‘ لانے کے وعدے پر کاربند ہے اورا گر اس کا نعرہ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی کوئی عملی اہمیت ہے ، تو اسے فوراً سے پیش تر بھارت کی تعمیر وترقی کے مفاد میں اسلام آبادا ور سری نگر کے ساتھ سرجوڑ کر مذاکراتی عمل کی شروعات کر کے ایک نئی تاریخ کا زریں باب رقم کر نے میں مزید لیت ولعل نہیں کرنا چاہیے ۔ مودی حکومت ایسا کر نے میں ناکام رہی تو کشمیر میں خون خرابے اور حد متارکہ پر مارا ماری رُک جانا قطعی ناممکن ہے اور اگراپنے ووٹ بنک کو توانائی واستحکام دینے کی پالیسی پر بدستور عمل پیرارہ کر سنگھ پریوار کا یہی جارحانہ طرزعمل جاری رہا تو یہ صورت حال کشمیر سمیت برصغیر کے لئے نحوستوں کا سامان پیدا کر تا رہے گا ۔   
 نوٹ: مضمون نگار کشمیر عظمیٰ سے وابستہ ہیں۔
رابطہ:9797205576،sofigulzar656@mail.com
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *