گزشتہ چند دنوں کے دوران مرکزی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے جو واضح اشارے ملے ہیں، اُس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ کشمیر میں موجودہ بے چینی کی لہرکو ایڈرس کرنے کے لئے مرکزی حکومت کے پاس کوئی نئی حکومت عملی نہیں بلکہ فی الوقت ان کے پاس مذاکرات پر سیکورٹی آپشن کو ہی اولیت حاصل ہے۔ پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست کی وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی کے ساتھ ملاقات کے بعد حالات میں بہتری لانے کے لئے تین مہینوں کے وقت کا تعین کیا، جس کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا میں کشمیر بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کی گئی ایک پٹیشن پر بولتے ہوئے مرکزی حکومت کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ پر واضح کیا کہ بات چیت صرف منظور شدہ جماعتوں سے ہی ہوسکتی ہے۔ ابھی اس پر سیاسی مبصرین کے تبصرے جاری ہی تھے کہ بھاجپا کے جنرل سکریٹری رام مادھو، جنہوں نے ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ حکمرانی کی شراکت داری کی دستاویز ایجنڈا آف الائنس کا خاکہ کھینچنے میں بنیادی کردار ادا کیا، نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ کسی بھی قسم کی بات چیت صرف بھارت کے وفاداروں کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ جبکہ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اپنے دورئہ جموں کے دوران اپنے پارٹی کارکنوں پر واضح کیاکہ وہ جموں اور لداخ میں کام کرکے آئندہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے تنہا حکومت بنانے کا موقع پیدا کریں۔ ان بیانات سے دو باتیں صاف ہو کر سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ مرکزی حکومت کے پاس فی الوقت کشمیر پر مذاکرات کا کوئی پروگرام نہیں ہے، دوم یہ کہ پی ڈی پی کے ساتھ بھاجپا کا اتحاد ایک طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے توسط سے وہ آئندہ انتخابات میں کسی کی حمایت یا اشتراک کے بغیر اپنے بل پر ریاست میں حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دونوں صورتوں میں اس کی مار حکمران پی ڈی پی کو سہنا پڑی ہے کیونکہ مزاحمتی خیمے کے ساتھ مذاکرات اس جماعت کے ایجنڈا کا حصہ ہے اور اسی بنیاد پر اسے ایجنڈا ٓف الائنس میں بھی شامل کیا گیا تھا، جبکہ اقتدار میں آنے کے بہ سبب بی جے پی کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع ملا ہے، جس کی بدولت وہ اب اپنے دائرہ اثر والے علاقوں سے آگے بڑھ کر اُن خطوں میں پیر جمانے کے لئے پرتول رہی ہے، جو دیگر جماعتوں کی سیاسی آماجگاہیں رہی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت قانون ساز کونسل کے حالیہ انتخابی نتائج ہیں، جس کے دوران بی جے پی نے پونچھ خطہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک امیدوار کی بلا مقابلہ کامیابی یقینی بنائی جبکہ جموں سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار کے لئے اپنی ہی شریک اقتدار پارٹی پی ڈی پی کے قلعے میں سیند لگا کر اتحادی سیاست کے چہرے پر کالک پوتنے سے بھی احتراز نہیں کیا۔بھاجپا کے طرز عمل سے زمینی سطح پر پی ڈی پی کو شدید نقصان کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اپنی صفوں میں برہمی کی لہر موجود ہے۔ یہ برہمی کارکنوں کی سطح پر ہی نہیں بلکہ پارٹی کے اعلیٰ حلقوں میں بھی پیدا ہوئی ہے، جو دونوں پارٹیوں کے اتحاد پر بجائے خود ایک سوال ہے۔ بھاجپا کی طرف سے مزاحمتی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار پر جہاں ریاست کی مین سٹریم جماعتیں برہم ہیں وہیں ملک کے سنجیدہ فکر حلقے بھی اس پر حیرت زدہ ہیں؟ مزاحمتی حلقوں کو ایک طرف کرکے مذاکرات کی کیا تُک باقی رہتی ہے۔ تسلیم شدہ سیاسی جماعتیں، جو کسی نہ کسی وقت اقتدار میں رہی ہیں یا اقتداری سیاست کا حصہ ہیں، کے ساتھ کن مسائل پر مذاکرات ہوسکتے ہیں؟ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ریاست کے تاریخی پس منظر کو پس پشت ڈال کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں ایک طرف مسئلہ کشمیر کے بنیادی اور تسلیم شدہ حقائق سے انحراف موجود ہے اور دوسری جانب اسے ماننے والے ملک دشمن قرار پاتے ہیں، نیز ملک دشمنی سے نمٹنے کے نام پر طاقت کے بے محابہ اور بے تحاشہ استعمال کو نہ صرف جائز بلکہ وقت کی ضرورت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور اس کے لئے ملک بھر میں زمین ہموار کرنے کے لئے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے توسط سے انتہا پسند نظریات کے حامل لوگوں کو متجمع کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس کے آگ چل کر کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، ہندوستان بھر کے سنجیدہ فکر حلقے اس سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اس پر پشیمان بھی ہیں۔ کیا یہ پریشانی اور پشیمانی پی ڈی پی کی قیادت پر جاگزیں ہورہی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔