الف عاجز اعجاز
جہلم کے اُسی کنارے پر لوگوں کا جمِ غفیر اکٹھا تھا، جہاں پانی صدیوں سے چپ چاپ بہہ رہا تھا ، ایک ملنگ مذاق بب دھند میں لپٹا بیٹھا تھا۔ اس کی میلی کمبل پر وقت کی گرد جمی تھی اور اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا نشہ تھا، جو نیند سے نہیں بلکہ خوابوں سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا درویش تھا جس کا کوئی ماضی نہ تھا، اور حال بھی بس ایک دھندلا سایہ تھا۔
جب رات اپنی سیاہ چادر پھیلاتی، تو عورتیں چپکے سے گھروں سے نکل کر اس کے پاس آتیں۔ وہ اپنی بانجھ کوکھوں پر ہاتھ رکھتیں، آنکھوں میں یقین اور ہونٹوں پر خاموش فریاد لیے۔ وہ سمجھتی تھیں کہ مذاق بب کے الفاظ میں کوئی ایسا جادو ہے، جو ان کے خالی وجود میں زندگی بھر دے گا۔ مرد بھی آتے، تھکن اور بے بسی کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور اس کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے زخموں کا مرہم مانگتے۔ مذاق بب کچھ بڑبڑاتا، ہوا میں ہاتھ گھماتا اور وہ سب سر جھکا کر چلے جاتے، جیسے انہیں کسی نادیدہ روشنی کی خبر مل گئی ہو۔
مگر چنار کے پیڑ اور جہلم کا پانی جانتے تھے کہ یہ روشنی نہیں، بس دھوکہ تھا، وہ بھی ایسا دھوکہ، جو نسلوں سے وادئ گُل پوش کے آسمان پر ایک مصنوعی سورج بن کر چمک رہا تھا۔ یہ سورج روشنی تو دیتا تھا، مگر اس کی شعاعوں میں کوئی تمازت نہیں تھی۔
یوں وقت گزرتا رہا۔ عورتیں دعا مانگتی رہیں، مرد سکون تلاش کرتے رہے، اور مذاق بب وہی پرانی کہانیاں سناتا رہا۔ مگر پھر ایک دن، جب چنار کے پتّے زمین پر بکھر رہے تھے تو لوگوں نے دیکھا کہ مذاق بب وہیں پڑا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اس بار اس کے ہونٹ خاموش تھے، اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، جیسے وہ کسی نادیدہ سچائی پر حیران ہو۔
جہلم کا پانی منجمد ہو چکا تھا، مذاق بب چنار کے نیچے بے جان پڑا ہوا تھا اُس کی آنکھیں خلاؤں میں لوگوں کو دئیے ہوئے فریب کو تلاش رہی تھیں، اُس کے جسم پر پرندوں نے نفرت کی بٹھوں سے انبار لگا دیا تھا، وہی لوگ جو کل تک اُس کی ایک جھلک پانے کی جستجو میں تھے…! ایک نئے مذاق بب کی تلاش میں نکل چکے تھے۔
���
طولی نو پورہ کولگام، موبائل نمبر9622697944