میں ’’کشمیرعظمیٰ‘‘ کے یومِ اشاعت سے ہی اس کا باقاعدہ قاری رہا ہوں ۔ اس کے ادارتی مضامین کی وجہ سے کشمیر کے دوسرے اخبارات سے اس کو مختلف محسوس کرتا ہوں۔ کبھی کبھی میں اپنی تحریریں بھی عظمیٰ میں برائے ا شاعت ارسال کرتا رہاہوں ۔کشمیر عظمیٰ میں شائع ہورہے مضامین کو بغور پڑھتا ہوں اور پسند بھی کرتا ہوںلیکن اخبار میں مزید نکھارے آئے اس کے لئے اپنی رائے دینے کی ضرورت بھی کبھی محسوس ہوتی ہے ۔ ۶/جنوری ۲۰۱۸ کو’’ بزمِ خیال‘‘ کے تحت اظہار الحق کی تحریر پڑھی بلکہ مکرر پڑھی۔ انہوںنے تخیلی سطح پر بہت عمدہ بات کہی ہے کہ انسان کے مرنے سے کوئی خلاء پیدا نہیں ہوتا جو اکثر انسان کو خیال رہتا ہے کہ اس کے مرنے سے دنیا کا کام کاج ٹھپ ہوجائے گا۔تحریر پڑھنے کے بعد میری خواہش ہوئی تھی کہ میں مصنف (اظہار الحق ) سے رابطہ کروں لیکن اخبار میں اُن کا کوئی اتہ پتہ نہیں چھپا تھا۔ مدیر محترم سے گزارش ہے کہ مضمون نگار کا مکمل پتہ شائع کرے۔
ظہیر الدین صاحب کا کالم ’’گمشدہ ستارے ‘‘ بہت پسند کرتا ہوں لیکن اختصار کی وجہ سے تشنگی رہتی ہے حالانکہ اجمال میں ہی حُسن ہے۔ ان سے التماس ہے کہ ذرا تفصیل سے لکھیں۔ خود ش۔م۔ احمد صاحب نے غالب والا کالم موقوف کردیا ہے ،اُسے بحال کیا جانا چاہیے حالانکہ شفیع احمد صاحب نے اس نہج پر ہفتہ وار کالم لکھنا شروع کردیا ہے جس سے کچھ اُمید بندھی ہوئی ہیں۔ ۶/ جنوری کے شمارے میں مجید مجروح نے مختصر طور پر’’۵؍ جنوری کے زخم‘‘ کے نام سے اپنے دُکھ اور ستم کا اظہار کیا ہے ۔ حالانکہ اس موضوع پر وہ خوب لکھ سکتے ہیں کیوں کہ انہوں نے جو مسائل اور مصائب جھیلے ہیں اُن کو رقم کرنے کے لیے دفتر درکار ہے لیکن پتہ نہیں کیوں مجید صاحب حد سے زیادہ اختصار پسند واقع ہوئے ہیں۔ آخر پر ایک اوربات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ۶ / جنوری ۲۰۱۸ کے شمارے میں آپ نے ماجد الاسلام کا مضمون ’’۶جنوری ۱۹۹۳ ۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ سوپور کی قیامتِ صغریٰ !‘‘ شائع کیا ہے ۔ اس میں آپ نے مضمون نگار کی جگہ اُردو کے مشہور شاعر اسرارالحق مجازؔ کی تصویر لگادی ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ سے اتنی بڑی چوک کیسے ہوئی ہے؟
اخبار میں خبروں کا حصہ جاندار بنانے کی از حد ضرورت ہے ۔ آپ صرف انہی خبروں پر تکیہ نہ کریں جومقامی ایجنسی سے فراہم ہوتی ہیں بلکہ بین الاقوامی ایجنسیوں کی خبروں کو ترجمہ کرکے پیش کرنے کی ضرورت زیادہ ہے۔یو این آئی اور پی ٹی آئی کی خبروں میں زبان کی درستگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے ۔ مشرقِ وسطیٰ اور ترکی سے متعلق تسلی بخش خبریں نہیں ملتی ہیں۔ آپ اپنے اخبار کو’’ سیاست‘‘ اور’’ انقلاب ‘‘ کی سطح پر لانے کی کوشش کیجئے تبھی آپ اپنے قاری کو ایک مکمل اخباردے سکیں گے۔ مجھے ذاتی طور پر ’’کشمیرعظمیٰ ‘‘ میں خبروںکی محدودیت کی وجہ سے دوسرا اخبار بھی خریدنا پڑتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اُمید ہے کہ کشمیر اعظمیٰ مستقبل میں ترقی کے کئی ایک منازل طے کرے گا۔انشا اللہ
ڈاکٹر الطاف انجم
نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیر یونیورسٹی
جواباً عرض ہے :
سلام مسنون کے بعد عرض ہے کہ ہمیں آپ کی قیمتی آراء اور مثبت تجاویز کا خیرمقدم ہے ۔ جہاں تک اظہار الحق صاحب کے محولہ بالا مضمون کا تعلق ہے ،اس کے متن میں اُن کا کوئی پتہ یا ٹیلی فون نمبر درج نہیں تھا ،اس لئے ظاہر ہے کہ ہم ان کا پتہ دینے سے قاصر رہے۔ ماجد الاسلام کے مضمون بعنوان ’’سوپور کی قیامت صغریٰ‘‘ میں اوپر یٹر کے تسامح سے تصویر کی ادلابدلی ہوئی،انہوں نے ماجد کی جگہ مجازؔ کا فوٹو لگایا۔ اس پر راقم نے موصوف کو آئندہ چوکنا رہنے کی فہمائش کی۔ بہر حال اس غیرارادی تسامح کے لئے راقم الحروف قارئین کرام اور مضمون نگار سے معذرت خواہ ہے ۔
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر
کشمیر عظمیٰ