ڈوڈہ//دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنو سے منسلک و ملحق مدارس کے ذمہ دار اور دارالعلوم کے صفِ اول کے استاد مولانا کفیل احمد ندوی نے کہا ہے کہ فروعی اختلافات کی بنیاد پر انتشار اور افتراق پیدا کر نا اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہے اور اس سے اُمتِ مسلمہ کو سوائے نقصان کے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔اُنہوں نے کہا کہ بعض دینی مسائل ایسے ہیں جن میں اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ آدمی جو مرضی عمل اختیار کرے مگرمسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق پیدا کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنو سے منسلک مدرسہ ضیاء القرآن نگری ڈوڈہ کے تیسرے سالانہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کو اپنے سارے مسلکی اختلافات کو بھلا کرمتحد و متفق ہو جانے کی شدیدضرورت ہے کیوں کہ ا س وقت آپسی اتحاد کی جس قدر ضرورت ہے ، شاید ہی کسی دور میں رہی ہو ۔ ایسے نازک حالات میں چند جزوی مسائل کو لے کر انتشار و افتراق پیدا کرنا اور امت مسلمہ کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا وقت اور حالات کے تقاضے کے خلاف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فروعی مسائل میں ائمہ کے درمیان اختلاف کی حیثیت افضل اور غیر افضل سے زیادہ نہ رہی ، لیکن موجودہ دور کے کچھ نام نہاد علماء نے ان اختلافات کو حق و باطل، انتشار و افتراق ، مناظرہ و جدل کا موضوع بناکر رکھ دیاہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔اُنہوں نے کہا تحریک ندوہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے تحت قائم کردہ دارالعلوم کا نصاب موجودہ دورمیں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ندوۃالعلماء نے زمانے اورحالات کے تقاضوں کے مطابق مدراس کے نصاب میں تبدیلی کی تحریک شروع کی تھی جسے اُس وقت تو اگرچہ قبول نہیں کیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات تمام مدارس کے ذمہ داروں کو ماننا پڑی اور آج ہر مدرسہ میں علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق جدید علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ندوۃ کا مزاج شروع سے ہی کچھ اس قسم کا رہا ہے کہ اس میں سب کے سماجانے کی گنجائش ہے۔یہاں وسعتِ نظر ہے اور فروعی اختلافات کو اُن کی حدوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ندوۃالعلماء کا مقصد اگر چہ دینی علوم کی اشاعت اور ایسے علماء تیار کرنا ہے کہ جو قرآن،احادیث اور دیگر دینی علوم پر گہری نظر رکھنے والے ہوںمگر اس کا نصاب اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ یہاں کے فارغین اگر چاہیں تووہ دُنیاوی میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہ سکتے۔اُنہوں نے کہا کہ ندوۃالعلماء کے تحت چلنے والے اداروں کی کارکردگی قابلِ تعریف ہے اور ان میں طلباء کی تربیت کا نظام بھی قابلِ ستائش ہے۔سالانہ جلسے کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے کیا گیا جس کے بعد مدرسہ کے بچوں نے اپنا رنگا رنگ پروگرام پیش کر کے حاضرین کے دلوں کو موہ لیا۔افتتاحی کلمات میں مدرسہ کے مدرسہ کے صدر مدرس مولانا یاسر نبی نے مدرسہ کا مکمل تعارف اور تین سالہ رپورٹ پیش کی۔اس موقع پر وادیٔ سے آئے ہوئے عالمِ دین اورمدرسہ سراج العلوم کے مہتمم مولانا عدنان احمد ندوی نے بھی سامعین سے خطاب کیا۔اختتامی کلمات میں مولانا ڈاکٹر عنایت اللہ ندوی نے کہا کہ مدرسہ ضیا ء القران کا مقصد معاشرے اور سماج کو ایسے افراد فراہم کرنا ہے جو نئی نسل کی صحیح قیادت کر سکیں،جو قرآنی تعلیمات پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون کے ماہر ہوں اورجو تمام مسلکی اور مذہبی اختلافات سے بلند ہو کر عوام الناس کی رہنمائی کر سکیں ۔اُنہوں نے کہا کہ ہر مدرسہ کا سلسلۂ نسب صفۂ نبوی ؐسے ملتا ہے اور جس کا نسب صفۂ نبوی سے نہ ملتا ہو وہ مدرسہ کہلانے کا کسی بھی لحاظ سے حقدار نہیں ہے۔وہ اور سب کچھ تو ہو سکتا ہے مگر اُسے قرآن و حدیث کی تعلیمات کا سرچشمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔اُنہوں نے عوام و خواص سے اپیل کی کہ وہ دامے ،درمے ،سخنے ہر لحاظ سے مدرسہ ضیاء القرآن کی مدد رکریں اور اس میں زیرِ تعلیم مہمانِ رسولؐ کی کفالت میں حصہ لیں۔ پروگرام کے دوران سال بھر مختلف قسم کے پروگراموں اور سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ
کرنے والے طلباء کو انعامات سے بھی نوازا گیا۔