ڈوڈہ//سیرت کمیٹی ڈوڈہ کے زیرِ نگرانی چلنے والے دینی ادارے مدرسہ انوار العلوم اکرم آباد ڈوڈہ کا25واں سالانہ جلسۂ دستار بندی اتوار کے روز منعقد ہوا جس میں دارالعلوم(وقف) دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا احمد خضر مسعودی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور چیئرمین آن لائن فتاویٰ سروس دیوبند مفتی ارشد فاروقی بطورِ مہمانانِ خصوصی موجود تھے جنہوں نے مشترکہ طور پر حفظِ قرآن پاک کی سعادت حاصل کرنے والے 9خوش نصیب طلباء کی دستار بندی کی۔اس موقع پر سیرت کمیٹی ڈوڈہ کے صدر خالد نجیب سہروردی اور جنرل سیکریٹری شاد فرید آبادی کے علاوہ درجنوں علمائے کرام اور ہزاروں کی تعداد میں فرزندانِ توحید بھی موجود تھے۔پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا جس کے بعد مدرسہ میں زیرِ تعلیم طلباء نے اپنا رنگا رنگ پروگرام پیش کر کے حاضرین سے دادِ تحسین حاصل کی۔بعدہٗ مفتی ارشد فاروقی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا مسلم معاشرہ متعدد مسائل و مشکلات سے دوچار ہے اور اس کی وجہ قرآن سے دوری ہے۔ مسلمان مردو و خواتین خصوصاً نوجوان نسل قرآن سے دور ہو چکی ہے اورعصری تعلیم کی دوڑ میں دین کا پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو تا جا رہا ہے ۔ یہ ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ آج ڈاکٹروں، انجینئروں اور دوسرے پیشہ وروں کی ایسی ٹیم تیار ہو رہی ہے جو صرف نام کے مسلمان ہیں۔ یہ قصور اس نظام ِ تعلیم کا ہے جس نے ان کا راستہ غیر محسوس طریقے سے الگ کر دیا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد سے ہی ماں باپ کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ ان کا بچہ کس طرح سے بہتر سے بہتر عصری تعلیم حاصل کر سکے اور وہ اس نظام تعلیم میں وہ کہاں اور کس طرح فٹ ہو گا۔ اس فکر نے ماں باپ کو ان کے اس فرض سے غافل کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ایک اچھا مسلمان بنانے کی طرف توجہ بھی کر سکیں۔ اس طرح معاشرے کو ایسے ڈاکٹر، انجینئر،وکلاء اور دیگر لوگ دستیاب ہو رہے ہیں جن کے پیشِ نظر صرف اور صرف دُنیاوی فائدہ ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو قرآنی ،دینی اور شرعی علوم سے بھی روشناس کیا جائے تاکہ دُنیا سے زیادہ اُن کے پیشِ نظر آخرت رہے اور وہ معاشی حیوان بننے کی بجائے معاشرے کے صحیح خادم بن سکیں ۔اُنہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں دُنیا میں سب سے زیادہ کمی عدل کی ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ آج عدل کہیں نظر ہی نہیں آتا ۔آج والدین اولاد سے اور اولاد والدین ،استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد سے ،حاکم محکوم سے او ر محکوم حاکم سے انصاف نہیں کرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ دُنیا کی بری بڑی طاقتیں آج انصاف سے دور ہو کر ظالم بن چکی ہیں جس وجہ سے دُنیا کا نظام درہم برہم ہو کے رہ گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تمام رشتوں کو اپنی صحیح جگہ پر رکھ کر تعلقات کو قائم رکھنے کا نام انصاف ہے،مگر یہ انصاف قرآن کی تعلیمات کے بغیر نہیں آ سکتا۔اُنہوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک کے وزیرِ اعظم اور اُن کی لابی کے لوگ مسلمان خواتین پر بہت مہربان نظر آ رہے ہیں اور طلاق کے سلسلہ میں مسلم بہنوں کو انصاف دلانا چاہتے ہیں۔مگر اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ طلاق کے سلسلہ میں شریعت کی تعلیمات دو ٹوک اور مبنی بر انصاف ہیںاور اُن میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔اُنہوں نے کہا کہ جو لوگ تین طلاق کے معاملہ کو نا انصافی سے تعبیر کرتے ہیں وہ شریعت کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور اُنہیں چاہیے کہ وہ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بیان بازی کریں۔اپنے خطاب میں مولانا احمد خضر مسعودی نے کہا کہ قرآن مجید ایسی مقدس کتاب ہے جس کے احکامات پر عمل کر کے ہی انسان کامیابی کے منازل طے کر سکتا ہے۔اُنہوں نے کہا ہر طرح کی ضلالت و گمراہی سے نجات دلانے والی واحد کتاب قرآن مجید ہے۔ بغیر قرآن مجید کے احکامات پر عمل کئے انسان ضلالت کی تاریکیوں سے نہیں نکل سکتا۔ انہوں نے کہاکہ قرآن مجید پر عمل کرکے معاشرے سے ہم تما م برائیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ علماء نے لکھا ہے کہ جس کسی نے بھی قرآن کو اپنا مشغلہ بنایا،جوقرآن کی تلاوت کرتا ہے ، اس کی تفسیر بیان کرتا ہے، اس کا ترجمہ پڑھتا ہے،انشا ء اللہ وہ کبھی فقر وفاقہ میں مبتلاء نہیں ہو گا۔اُنہوں نے علمائے دیوبند خصوصاً اپنے دادا جان مولانا انور شاہ کشمیری ؒکے کچھ نا قابلِ فراموش واقعات بھی بیان کئے۔ اس موقع پر خالد سہروردی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا احمد خضر مسعودی اور مفتی ارشد فاروقی کا شکریہ ادا کیا کہ اُنہوں نے اس دور دراز علاقہ میں قائم اس مدرسہ کے جلسہ میں تشریف لا کر یہاں کے طلباء،اساتذہ،انتظامیہ اور یہاں کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔اُنہوں نے مولانا احمد خضر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس خطہ میں آپ کے جلائے ہوئے چراغ آج روشنی دے رہے ہیں اور اگر آپ کا سایہ اور آپ کی شفقت ان پر بھی رہے تو یہ اور بھی روشنی پھیلاتے جائیں گے۔اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ قرآن ہمارے پاس موجود ہے مگر یہ خطہ علمی لحاظ سے ابھی بہت پسماندہ ہے۔ابھی ہم یہ بات سمجھ ہی نہیں پائے ہیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور اُس کی کتاب ہم سے کس بات کا مطالبہ کرتی ہے۔اُنہوں نے کہا ہم نے بہت سارے میدان خالی چھوڑ رکھے ہیں جن میں سیاست کا میدان،علم کا میدان،معاشیات کا میدان وغیرہ شامل ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ جو منصبِ امامت ہمیں سونپا گیا ہے اُس کے ساتھ ہم تب جا کر انصاف کر سکتے ہیں جب ہر میدان میں ہم قیادت کرنے کے قابل ہو سکیں۔اُنہوں نے کہا کہ ہمیں ہر میدان میں آگے بڑھنا ہے کیوں کہ اگر ہم نے کسی میدان کو خالی چھوڑا اور ہم خاموش رہے تو ضرور غلط لوگ سامنے آ جائیں گے کیوں کہ مقولہ مشہور ہے کہ کہ دُنیا میں جرائم ،بدامنی،نا انصافی وغیرہ غلط لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کے خاموش رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔