یکم مئی ۲۰۱۸ء کو مدرستہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، زکورہ سری نگر کی شاندار اور پُر وقار سالانہ تقریب آر پی اسکول علمدار کالونی باغات شُور سری نگر کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں مذکورہ اسکول کے شعبہ ٔ حفظ قرآن کے فارغین کی دستار بندی کی گئی۔ قبل اس کے کہ اس تقریب کی رُوداد بیان کی جائے، قارئین کرام کی اطلاع کے لئے اس ادارے کے قیام کے پس منظر اور دیگر متعلقات کے بارے میں ایک سرسری تذکرہ موزون رہے گا۔
یہ آج سے چھ سال قبل کی بات ہے کہ جو نیک تمنا آر پی اسکول (بائز) علمدار کالونی شُور کے نگران اعلیٰ اور رُوح رواں مولانا عاشق حسین ندوی صاحب کے دل میں کافی مدت سے انگڑائیاں لے رہی تھی، وہ بفضل تعالیٰ اُم المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام نامی سے منسوب مدرسے کے قیام کی صورت میں متشکل ہوئی۔ زکورہ کراسنگ سرینگر کے قرب میں واقع اس اد ارے میں ملت کی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کر نے کی کاوشیں محض تائید ایزدی اورمولانا عاشق حسین ندویؔ دامت برکاتہ کی سعیٔ مشکور سے جاری ہیں ۔ یہ مدرسہ مولا نا موصوف کے اپنے دل اور ضمیر کی صدائے بازگشت ہی کہلاسکتاہے کہ موجودہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں انہیںطالبات کے لئے ایک دینی مدرسہ کھولنے کی توفیق ملی۔ اس بارے میںمولانا موصوف نے کئی علمائے کرام سے سنجیدہ مشاورت کا مرحلہ طے کیا تو اُن کی حوصلہ افزاء تجاویز اور مثبت آراء سے مولانا عاشق کی ہمت ہی نہ بڑھ گئی بلکہ اُن کے سامنے مدرسے کا ابتدائی خاکہ بھی آگیا۔ اس حوالے سے دارالعلوم بلالیہ سری نگر کے مہتمم مفتی عبدالرشید مفتاحی صاحب اور ڈاکٹر مشتاق احمد( بنگلور) کے زریں مشوروں اور رہنمائیوں سے مولانا صاحب نے بے پایاں استفادہ کیا ۔ان حضرات نے اس نیک کام کو جلد از جلد پا یہ ٔ تکمیل تک پہنچاننے کی حکیمانہ ترغیب دے کر مدرسے کے قیام کا گو یا سنگ ِبنیاد رکھا۔ حق یہ ہے کہ مولانا عاشق صاحب ندویؔ جب تعلیم ِنسواں کے نام سے مغربیت کا پیداکردہ طوفان چاروں طرف دیکھتے اور مخلوط تعلیم کی جان لیوا بیماریوں کا مشاہدہ کر تے تو انہیں محسو س ہوتا کہ ملت کی بیٹیوں کو ان طوفانوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ سفینہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ، مدرستہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ اسی سفینے کانام ہے ۔ اللہ کا خاص فضل وکرم ہی ہے کہ اس تعمیری، تعلیمی و اصلاحی مشن کی بنیاد بالآخر مدرستہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ کی شکل میں صرف للہیت، خلوص اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے مقاصد سے پڑی۔ مولانا موصوف نے اس مطہر و معطر خواب کی تعبیر کے لئے اپنے رہائشی مکان کو مدرسہ کے طور استعمال میں لانے کا فیصلہ لیا ۔ا نہوں نے اپنے والدین اور بھائیوں سے اس بارے میں باضابطہ اجازت طلب کی۔اللہ کے فضل سے تمام افرادِخانہ نے اس دینی ضرورت اور اس کے پس پردہ نیک جذبات و احساسات کا خیر مقدم کر تے ہوئے ادارے کی تاسیسں میں اپنا ہاتھ ذوق و شوق سے بٹایا ۔ حسن ِاتفاق سے مولانا کی شریک ِحیات چونکہ خود بھی درس نظامی کی سندیافتہ ہیں ،اس لئے موصوفہ مدرسہ کی ناظم الامور( پر نسپل) مقر ر ہوئیں ۔ نیز اس گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک اور عربی معلمہ نے مدرسے میں عربی گرائمر پڑھانے کی ذمہ داری لی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے ادارے کا ساراکام بہ حسن وخوبی انجام پارہاہے ۔ شروعات میں حسبِ معمول مدرسے کو کئی چھوٹی بڑی دشواریوں یا آزمائشوں کا سامنا بھی رہا،خصوصاً بچیوں کے پڑھانے کے لئے قابل ترین معلّمات کی تلاش کار ے دار معاملہ بنا رہالیکن یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل واحسان شامل حال رہا اور مدرسے کو لائق معلمات کی خدمات حاصل رہیں ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ادارے میں پانچ سال مکمل کر کے کئی خوش نصیب بچیوں نے اب سند ِعا لمیت حاصل کر لی ہے۔اسی مناسبت سے منتظمین مدرسہ کا پروقار جلسہ یکم مئی ۲۰۱۸ کو منعقد کیا گیا۔جلسے کی کارروائی قرآن پاک کی تلاوت سے شروع ہوئی ، یہ سعادت آرپی اسکول کے متعلم محمد رومان کے حصہ میں آئی۔ بعد ازاں آپﷺ کی بارگاہ میں نعت پاک آرپی اسکول کے اُستاد مفتی محمد منصور صاحب نے پیش کی۔ اس کے بعد دارالعلوم بلالیہ کے مفتی عبدالرشید مفتاحی صاحب کا ایمان افروز بیان ہوا۔ مفتی صاحب نے مولانا عاشق کے کام کو سراہا اور انہیں دادِ تحسین سے نوازا۔آپ نے مدرسہ کی ترقی اور کامیابی کے لئے دعا ئے خیر فرمائی۔ حسب ِ پروگرام مفتی صاحب کے مبارک ہاتھوں آرپی اسکول کے سالانہ میگزینRAIDIANT (پانچویںایڈیشن)کی رسم اجرائی عمل میں لائی گئی۔اس کے بعد آرپی اسکول کا ترانہ پیش کیا گیا۔
مولانا ارشد حسین ندویؔ دامت برکاتہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ندویؔ صاحب نےـ:’’ درس ِنظامی اور سائنسی علوم کا سنگم‘‘ کے موضوع پر سیر حاصل اور چشم کشا گفتگو فرمائی۔ انہوں نے مدلل انداز میں فرمایا کہ سائنسی علوم اصل میں مسلمانوں کی میراث و میدانِ عمل ر ہے ہیں جس پر یورپ نے قبضہ جمایا ۔ ہماری نئی نسل کو چاہیے کہ اپنے اسلاف کی وہ عربی کتابوں مطالعہ کریں جنہیں پڑھ پڑھ کر یورپ نے سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ زینے طے کئے ۔فاضل مُقرر نے مخلصانہ مشورہ دیا کہ ہمارے طلبہ کو جھوٹ اور تعصب سے لتھڑی کتابیں پڑھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔مولاناموصوف نے مسلم سائنس دانوں اور ان کے بے مثال علمی کارناموں پر تفصیلی روشنی ڈال کر تاریخ کے ایسے گوشوں پر روشنی ڈالی جنہیں ہم نے فراموش کیا ہو اہے۔
حضرت والا کی تقریر کے بعد مدرسۃ خدیجہ الکبریٰ ؓسے فارغ بچیوں کو اسنادِعا لمیت پیش کی گئیں ۔ یہ سندیںاسٹیج پر موجود علما ء مولانا ارشد حسین ندوی،مولانا محمد عدنان ندوی، مولانا بلال احمد اور مولانا منیر احمد نے مدرسہ کی فارغات کو اپنے اپنے محرموں کی وساطت سے تفویض کیں۔ قبل ازیں مبارک تقریب میں آرپی اسکول میں قائم شعبہ حفظِ قرآن سے فارغ چار حفاظ کی دستاربندی کی گئی ۔یہ چار طلباء شہر سری نگر سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے ۵ ؍سال کے عرصہ میں قرآن پاک کو اپنے سینوں میں محفوظ کر نے کا انعامِ الہٰی پایا۔ان حفاظ کرام کے نام ہیں عبد اللہ مسعود، ثاقب شمیم، نوید بصیم اور منیز المعراج۔بابرکت تقریب کے اختتام پر مولانا محمد عدنان صاحب نے دعا فرمائی ۔ بعدازیں پروگرام ہال میں ظہر نماز کی ادا ئیگی پر یہ بابرکت مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔