کشمیر میں رواں ایجی ٹیشن کے دوران جہاں بے شمار دل دہلانے والے واقعات رونما ہوئے ،وہیں نظام تعلیم پر بھی اُفتاد پڑی ۔ا س بنا پر طلبہ نے نامساعد حالات کے سبب بہت کچھ کھودیا۔ اب اسکولوں کی آگ زنیاں ہورہی ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم میں انقلاب وتغیر کی ہوائیں چلیں تو نوجوانوں خاص کر طلبہ وطالبات نے ہراول دستے کاکام دیا اور تعلیم کدوں نے انقلاب کی کامیابی میں اپنا خصوصی رول ادا کیا ۔ دنیا کا ہر باشعور اور مہذب انسان مانتا ہے کہ تعلیمی ادارہ کسی بھی قوم یا ملت کا ایک بیش قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ ان سے قوموں کی تقدیریں بدل سکتی ہیں بشر طیکہ نظام ِتعلیم اور نظر یۂ تعلم دُرست ہو۔ کشمیری قوم بہت خوش قسمت ہے کہ چرب دست و تردماغ ہو نے کے ناطے یہ تعلیم وتدریس اور خواندگی کو قدر ومنزلت کا مقام دیتی چلی آئی ہے ۔ا س نے غلامی ا ور محکومی کے دور ِ ظلمت میں بھی اپنی اس فطری خصوصیت کا قدم قدم پر ثبوت پیش کیا اور مثالیں بنائیں مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے وادیٔ کشمیر میں جس انداز سے نامعلوم بدخواہوں کے ہاتھوں تعلیمی اداروں کو خاکستر کرنے کا سنسنی خیز سلسلہ جاری ہے ،وہ اہل دانش اور ذی فہم افراد کو انگشت بہ دنداں ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ان صدمہ خیز واقعات پر جہاں ریاست کے باشعور طبقات دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں اور مزاحمتی لیڈرشپ سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پُر زور الفاظ میں اس شیطانیت کی مذمت کر ر ہے ہیں، وہیں ریاستی حکومت بھی بر وزن ِ شعر اس صورت حال پر اپنی چنتا ظاہر کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کون کر رہاہے ؟ کس کے اشارے پر کر رہاہے؟ کیوں کر رہاہے؟ اساتذہ ، طلباء، والدین اور ہر ہوش مند وخردمند نہایت ہی افسردگی اور بے بسی کے ساتھ یہ سوال اٹھارہاہے کہ آخر کون ہے جو ان بیش قیمت اثاثوں کو خاک میں ملا رہاہے ۔ یہ تو وہ جانتا ہے کہ کشمیری قوم کو قبروں میں اتارنے سے کون کون لطف اٹھارہاہے مگر سکول جلاکر قوم کو خواندگی کے نور سے محروم کر دینے والے کون ہیں ،ا س کا لوگوں کو علم نہیں ۔ یہ جو کوئی ہو کم ازکم یہ اہل کشمیر کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔ گولیوں سے نوجوانوں کو چھلنی کر نے ، چھروں سے بچوں تک کی بینائیاں چھین لینے اور قوم کو مفلوج کر نے والے لوگ کون ہیں اورا ُن کے برے عزائم کیا ہیں ، یہ سب ہم پر واضح ہے مگر تعلیمی اداروں کو جلانے والوں کی ابھی تک شناخت نہیں ہورہی جو کہ ہنوز ایک معمہ ہے ۔ اس بارے میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں ،ان کا تشفی بخش جواب نہ عام لوگوں کے پاس ہے ، نہ سیاسی قیادت کے پاس اور نہ ہی ہمدردی اورسنجیدگی سے عاری حکومتی عہدیداروں کے پاس۔ اس لئے ہم سب کے پاس اگر کچھ ہے تو محض واویلا اور تاسف وتعجب۔ ان سوالوں کی گھتی اپنی جگہ ا لبتہ حکومت کا اساتذہ اور استانیوں پر اسکولوں کی شب وروز رکھوالی ا ور چوکیداری کی ذمہ داری عائد کر نا ایک مضحکہ خیز اقدام ہونے میں دورائے نہیں۔ یہ کام پولیس کے دائرہ ٔ اختیار میں آتا ہے کہ وہ شرپسندوں سے اسکولوں کو بچائیں نہ کہ بچارے ٹیچروں کا۔ اگر پولیس والے پنڈت بستیوں کی رکھوالی پر مامور ہیں تو اسکولوں کی رکھوالی پر کیوں تعینات نہیں کئے جاسکتے ؟ اس سے پھر پتہ چلتا ہے کہ حکومت اسکولوں کے بچاؤ میںکوئی خاطرخواہ دفاعی اقدام نہ کر نے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ چونکہ حکومت نے سوائے سینہ کوبی کے عملاًکچھ بھی نہ کیا،نتیجہ یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکول نذر آتش ہو رہے ہیں۔ ہمارے کرم فرما حکمرانوں نے تعلیمی اداروں کو بچانے کا کام Contengency Paid Workersجیسے قلیل اُجرت پر کام کر رہے کم نصیب عملے اور اساتذہ کوسونپ کر دکھایا کہ حکومت تعلیمی اداروں کے بچاؤ میں کتنی سنجیدہ ہے۔عقل سے پیدل اس زعفرانی سرکار کو شاید معلوم نہیں کہ استاد صرف استاد ہوتا ہے اور چوکیدار صرف چوکیدار ۔ استاد کو چوکیدار بنانے کی افسوسناک منطق بتا رہی ہے کہ اقتدار والے اپنا ہوش وحواس کھو چکے ہیں۔ استاد کس اعزاز اور تکریم کا حق دار ہوتا ہے، اس کا شاید ہمارے حکمرانوں کو علم نہیں ۔ ہوگا بھی کیسے ؟ اسی حکومت کے زیر سایہ ایک لیکچرار کو زیر حراست جرم بے گناہی کی پاداش میںمارا گیا جب کہ سابقہ دور میں ایک لیکچر کو گرفتار کیا گیا کیوں کہ انہوں نے اپنے مر تب کردہ سوالنامے میں ظلم کے حالات میں عید منانے پر طلبہ سے مضمون لکھنے کا ایک سوال دیا تھا۔ ہمارے اساتذہ کو دورانِ کریک ڈاون مرغا بننے کا حکم ملتا ہے اور انہیں خون خوار فضا میںبچوں سے جبراََ امتحان لینے پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ایسی طفلانہ اور مضحکہ خیز حرکتیں دیکھ دیکھ کر میرے ذہن میں وزیر تعلیم نعیم اختر کے وہ خوش الفاظ بیانات اکثر گردش کرتے ہیں جن میں وہ بچوں کے تئیں اپنی ہمدردی اور محبت جتا کر خود کو بڑا سادھو سنت ثابت کر تے رہے ہیں۔ میری دانست میں یہ سب کچھ دکھاوا اور جذباتی بلیک میلنگ ہے۔ بہرکیف جب تک وزیر موصوف اور حکمران جماعت تعلیمی اداروں کے تئیں اپنی منصبی ذمہ ادریوں کو ہوش گوش سے ادا نہیں کرتے تب تک تعلیمی اداروں کا خدا ہی حافظ ہے ۔ البتہ ہمیں عوامی سطح پر ہوش کے ناخن لے کر اپنی اپنی بستیوں میںتمام تعلیم گاہوں کی حفاظت کا مخلصانہ بیڑا اٹھانا چاہیے ۔ اس ضمن میں مقامی سماجی کارکن ، مساجد کمیٹیاں اور محلہ کمیٹیوں کو آگے آنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی اسکول مودی یا محبوبہ مفتی کی ذاتی میراث نہیں بلکہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور اس کی دیکھ ریکھ کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ حکومت کے بھروسے پر یونہی رہ کر ہر سکول کے نذر آتش ہونے کا انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سردست علاقائی سطح پر عام شہری احسا س ذمہ داری سے لیس ہوکر تمام تعلیمی اور دوسرے اداروں کی ہر ممکن حفاظت کا فریضہ نبھائیںتاکہ قو م کا مستقبل خاکستر ہونے سے بچایا جا سکے۔
رابطہ :ہردوشیواہ۔۔۔ زینہ گیر کشمیر