ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
اللہ کا فضل اور شکر ہے کہ مسلم سماج میں تعلیمی بیداری آئی ہے ، گارجین بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں ، بچے ؍ بچیاں بھی تعلیم سے دلچسپی رکھتے ہیں ، یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلم سماج میں تعلیم کا تناسب اور رجحان بڑھ رہا ہے اور گارجین اور طلبہ اس جانب پوری طرح توجہ دے رہے ہیں ۔
مسلم سماج میں تعلیم کے لئے دو قسم کے ادارے کام کر رہے ہیں ، ایک اسکول ہے اور دوسرا مدارس ہیں۔ مسلمانوں کے اکثر بچے ؍ بچیاں اسکول میں تعلیم حاصل کر تے ہیں اور تقریباً۴؍فیصد بچے اور بچیاں مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
جہاں تک معیاری تعلیم کی بات ہے اور اہل علم اسکول کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکثر اسکول کے ذمہ داران نے اسکول کی تعلیم معیاری بنانے کی کوشش کی ہے ، اُنہیں اپنے طلبہ کو جیسے تیسے چند سال تعلیم دے سرٹیفکیٹ اور ڈگری دینے کی جلدی نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ معیاری تعلیم کا انتظام اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ معیاری اسکول میں داخلہ کے لئے بھیڑ لگی رہتی ہے جبکہ بہت سے طلبہ و طالبات خواہش کے باوجود داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ موجودہ وقت میں تعلیم کا جو معیار اسکولوں میں ہے ، وہ معیار مسلم سماج کے اکثر مسلم اسکولوں میں نہیں ہے ،اسی لئے مسلم سماج کے طلبہ ان اسکولوں میں بہت کم داخلہ لیتے ہیں بلکہ وہ مسلم اسکول کے بجائے دیگر اسکول میں داخلہ لیتے ہیںتاکہ وہ معیاری اسٹوڈنٹ بنیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
جہاں تک مدارس و مکاتب کی بات ہے تو ان کی تعداد لاتعداد ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ تقریباً ہر گاؤں میں مکاتب اور مدارس ہیں تو غلط نہ ہوگا ، مگر افسوس کی بات ہے کہ ان میں سےبہت کم ایسے ہیں جو معیاری ہیں اور ان مدارس لاج رکھے ہوئے ہیں ۔
ا س وقت بھی وقفہ وقفہ کے بعد مدارس کا قیام عمل میں آرہا ہےاور ذمہ دارانِ مدارس بچوں کو ۸سال پڑھا کر عالمیت اور فضیلت کی سند دے رہے ہیں ، بہت سے اِسی۸سال میں میٹرک بھی پاس کرا رہے ہیں ، اسی طرح بہت سے مدارس طلباء و طالبات آن لائن تعلیم دے کر عالمیت اور فضیلت کی سند دے رہے ہیں۔ بہت سے مدارس آن لائن افتاء کی تعلیم دے کر مفتی بنا رہے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے سرٹیفکیٹ اور ڈگری باٹنے کا ہور لگا ہوا ہے ، مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ بچے اور بچیوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں اور اچھے مدارس کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔ ذمہ داران مدارس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ فاضل ایک ڈگری ہے ، یہ پوری دنیا میں ایم اے کے مساوی ہے ، موجودہ وقت میں عصری اداروں میں ایم اے تک کی تعلیم کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
میٹرک 10 سال،انٹر 2 سال،گریجویشن 3 سال،ایم اے 2 سال،کل 17 سال۔عصری اداروں میں 17 سال تعلیم حاصل کرتے ہیں ، تب وہ ایم اے پاس کرتے ہیں ، مگر افسوس ہے کہ بہت سے ذمہ دارانِ مدارس صرف چند سال تعلیم دیتے اور عالم ، فاضل اور مفتی اور قاضی کی سند دیتے ہیں جوکہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے اور یہ مدارس کے طلبہ کے ساتھ بالکل نا انصافی ہے۔طلباء و طالبات کے لئے معیاری تعلیم کا انتظام اہل ِمدارس کا فریضہ ہے ورنہ وہ پکڑ میں آئیں گے اور وہ دن دور نہیں ہے۔
گارجین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے اچھے اور معیاری ادارے کا انتخاب کریں تاکہ اُن کے بچے اچھا بن کر نکلے ، طلبہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی تعلیم کے لئے اچھے اور معیاری ادارے کا انتخاب کریں ۔ عام طور پر فارغین مدارس کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ فضیلت کی سند کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں ، آن لائن افتاء کرتے ہیں ، آن لائن قضاء کی تعلیم حاصل کرتے ہیں یا ایسے ادارہ میں کچھ تعلیم حاصل کر کے ڈگری حاصل کرتے ہیں جو کہیں سے منظور نہیں۔ایسی سند اور ڈگری کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ فارغین مدارس کو چاہئےکہ وہ فضیلت کے بعد کوئی ایسی ڈگری حاصل کریں ، جس سےوہ زندگی میں کام لے سکیں ۔ موجودہ وقت مقابلہ کا ہے ، جب تک ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں بنائیں گے ، زندگی میں پریشانیاں جھیلتے رہیں گے۔
موجودہ وقت میں حکومت کی نظر مدارس پر زیادہ ہے ،ا گرچہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنیٰ ہیں ، مگر تحفظ حقوقِ اطفال کو بہانہ بنا کر مدارس کی انکوائری کی جارہی ہے ، ایسے ادارے جو معیاری نہیں ہیں ،وہ ابھی سے فکر کریںاور اپنے مدارس کو ہر اعتبار سے معیاری بنائیں تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ سرکاری مدارس کا ہے ، ان کی یہ فکر صحیح نہیں ہے ۔ اس کی زد میں وہ تمام ادارے آئیں گے جو غیر معیاری ہیں۔چند برسوں میں عالم اور فاضل کی ڈگری دیتے ہیں ،وسائل کی کمی ہے ،پھر بھی وہ عالم تک کی تعلیم دیتے ہیں ،اس لئے اہل مدارس کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت سے پہلے مدارس کو معیاری بنانے کی فکر کریں ، مدارس کے تحفظ کے لئے ان کو معیاری بنانا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے ، اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ مدارس جن میں عصری مضامین شامل ہے ،وہ دیگر انفرااسٹرکچر سے آراستہ کر کے معیاری بنائیں اور جن اداروں میں انٹر معیار تک نظام تعلیم اور نصاب نہیں ہے ، وہ ابھی سے تیاری کریں کہ ان کے مدارس میں کم سے کم انٹر معیار تک دینی اور عصری مضامین ہوں ۔ اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر پر بھی توجہ دی جائے تاکہ مدارس خطرات سے محفوظ رہیں ۔
رابطہ۔9835059987