جموںوکشمیر میں بے جے پی نے اپنی اتحادی پارٹی پی ڈی پی کو پیشگی مطلع کئے بغیر مخلوط حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے اور جموںوکشمیر میں گورنر راج قائم کرنے کااقدام بلا وجہ نہیں کیا ۔یہ کارروائی2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھاجپا کی کامیابی یقینی بنانے کے ضمن میں قومی و مذہبی شاؤنزم سے عبارت منصوبہ بندحربہ ہے۔ یہ امر کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے ، وگرنہ کوئی اور چیز اس قسم کا حیران کن قدم اُٹھانے کا محرک دکھائی نہیںدیتی۔ سیاسی سوجھ بو جھ رکھنے والے دانشوروں کو قبل ازیں ہی اندازتھا کہ عوامی سطح پر بھاجپا کی قبولیت میں زبردست کمی، یکے بعد دیگرے انتخابی جھٹکے ، نریندرمودی کی لفاظی، محاورہ بازی، تقریر بازی کے جادو کافور ہونے کے بعد نریندرمودی اور بھاجپا کے پاس اپنی سیاست فروخت کرنے کے لئے بجز مذہبی و قومی شاؤ نزم پھیلا نے اور ہندی ، ہندو، ہندوستان کا جذباتی نعرہ الاپنے کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ جموںوکشمیر میں اس سیاسی پینترہ بازی کے بعد جو پیش آئندہ انتخابی سلسلے کا پہلا تیر ونشتر ہے، آگے چل کر اس قسم کے دیگر ڈرامائی اقدامات غیر متوقع نہیں ہیں۔ ایودھیا کامسئلہ، گھرواپسی ، گئو کشی کا سوال، ملک کی سلامتی، یک جہتی کو خطرات کے مد نظر جنگ بازانہ اور سخت گیر پالیسی اختیار کرنے، پاکستان کے ساتھ مزید کشیدگی جیسے معاملات اور ڈرامائی اقدمات متوقع طور اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔ بہر حال عوام الناس کو بھاجپا قیادت کی طرف سے اس قسم کے مذہبی اور قومی شاؤ نزم سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ جموں وکشمیر میں اپنی ہی حکومت کا تختہ پلٹنے کے پیچھے بھاجپا کے سیاسی مقاصد کارفر ما ہیں جس کے لئے پارٹی نے سیاسی اخلاقیات کو لتاڑ کر قومی و مذہبی شاؤ نزم کا پہلا تیر چلایا۔
بھاجپا کے مرکزی ترجمان رام مادھو سمیت بھاجپا کے دیگر لیڈروں کی طرف سے محبوبہ مفتی وزارت سے حمایت واپس لینے اور گورنری راج مسلط کرنے میںمحبوبہ مفتی کی طرف سے ملی ٹینٹوں اور علیحدگی پسندوں سے نرم روی ، رمضان کے مہینہ میں یک طرفہ جنگ بندی، پتھر بازوں کے خلاف مقدمات کی واپسی اور دہشت گردی کے واقعات میںاضافہ کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔ یہ سب الزامات ہر گز قابل پذیرائی نہیںہوسکتے، کیونکہ یہ اقدامات( بالفرض اگر نہیں سچ بھی ماجا جائے ) اکیلے محبوبہ مفتی یاپی ڈی پی نے نہیں کئے بلکہ اس میں محبوبہ مفتی کی کابینہ میں بھاجپا کے وزراء بھی شر یک وسہیم تھے، بات ذرا وسیع تر تناظر میں کی جائے تو مرکزی سرکار کی حمایت بھی ان اقدمات کو شامل تھی۔ اس کاکریڈٹ لینے کے لئے نہ صرف بھاجپا ترجمانوں کے بیانات ہی گواہ ہیں بلکہ وزیراعظم نریندرمودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور کئی دیگر وزراء کے بیانات اور تقاریر بھی شاہد ہیں۔ ان اقدامات کے دُرست یا غلط ہونے کا مسئلہ الگ نوعیت کا ہے لیکن یہ امر مسلم الثبوت ہے کہ ان کے لئے مرکزی اور ریاستی سرکار بہ حیثیت مجموعی ذمہ دار ہے۔ اس لئے فقط محبوبہ مفتی کو ذمہ دار قراردے کر کیوں تختۂ مشق بنایا جائے۔ بھاجپا لیڈروں کو اس سلسلہ میں تسلی بخش جواب دینا چاہے۔ اگر ان ’’جرائم ‘‘کے لئے محبوبہ مفتی ذمہ دار ہے تومحبوبہ مفتی وزارت کے بھاجپائی وزراء مرکزی وزارت کے وزراء اور بھاجپا لیڈر بہ حیثیت مجموعی اس کے ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرتے؟
پورے عوام کو بخوبی علم ہے کہ جب بھاجپا اور پی ڈی پی میںکولیشن وزارت کی مفاہمت ہوئی تو اس وقت جو مشترکہ وثیقہ نامہ باسم ایجنڈا آف الائینس جاری کیاگیا۔اُس میں دیگر امور کے علاوہ دفعہ 370کے دفاع، پاکستان سمیت مسئلہ کشمیرکے تمام متعلقین سے مذاکرات، علیحدگی پسند وں سے مکالمہ آارائی ،مزاحمتی تحریک کے ساتھ نرم روی سے پیش آنے وغیرہ جیسے مدات نمایاں طورپر شامل تھیں۔ اب بھاجپا اگر اپنی سیاسی اور انتخابی ضروریات کی خاطر ان سے دستبردار ہونے کی خواہاں ہے، تو اُسے واضح طورپر اس کااظہار کرنا چاہیے نہ کہ اُن پر عملدرآمد کے اصرار پر محبوبہ مفتی اورپی ڈی پی کو مجر م قراردے کر یک طرفہ کارروائی کر نی چاہیے تھی،اس مدعے پر فر یق ثانی سے بلا کسی گفت و شنید کے حمایت واپس لے کر ریاست میں گورنر راج نافذ کرکے پراکسی حکومت چلانا موقع پرستی کے سوا اور کیا کہلائی جاسکتی ہے۔ بھاجپا نے ایسا کرکے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے کئے گئے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی ہی نہیںکی بلکہ جس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی طرف سے عالمی سطح پر ایران سے ہوئے معاہدہ سے یک طرفہ طورپر دستبرداری کا اعلان کیاگیاتھا، بھاجپا کافعل بھی ٹرمپ کے اسی آمرانہ عمل سے مطابقت رکھتاہے۔
جموںوکشمیر میں بھاجپا کا زیر بحث حالیہ فعل اُس کی اتحادی پارٹیوں کے لئے بھی درس ِعبرت ہے اور یہ حقیقت عیاں کرتاہے کہ یہ پریواری پارٹی اپنی سیاسی اغراض براری کے لئے دیگر پارٹیوں سے مطلبی اتحاد ضرور کرتی ہے لیکن اپنی مقصد براری کے بعد اُن کو ذلیل و خوار کرنے میںکوئی کسر باقی نہیںرکھتی۔ مہاراشٹر میں اس نے اپنی سب سے پرانی اتحادی پارٹی شو سینا سے یہی بُرا سلوک کیاہے اور اب سینا چیخ وپکار کررہی ہے مگر بے سود۔ آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی کے ساتھ اس نے یہی وتیرہ اپنایا اور اب زخمی ہوکر یہ تیلگو پارٹی اپوزیشن کے خیمہ میں داخل ہوگئی ہے۔ بہار میں اُس نے نتیش کمار کے ساتھ اسی طرح کا یارانہ کیا تھا مگر آج کل پچھتاوے کی کڑوی فصل کاٹ رہاہے، نتیش نے کانگرس اور لالو پرشاد یادو کے مہا گٹھ بندھن میں شامل ہوکر اپنی سیاسی جان بچانے کا اہتمام کیاتھا مگر بہت جلد وہ اقتدار کی چکا چوندی میں ایک بار پھر دھوکہ کھاکربھاجپا کے نرغے میںپھنسے ہیں لیکن جب بھاجپا اپنی خصلت پر آگئی تو نتیش کے لئے چیخ وپکار کرنا اور پریوار کی بے وفائی اور اپنی نادانی پر واویلا کر نے کے علاوہ کوئی کام نہیںرہاہے ۔ پنجاب میں اکالی دل اگرچہ ابھی بھاجپا کے ساتھ ہے لیکن اُس نے بھی اپنے ساتھ ہوئی بدسلوکی کا کہیں دبی زبان میں اور کہیں کھلے عام اظہار کیاہے ۔ اس لئے اب اگر پی ڈی پی کے ساتھ بھی بھاجپا نے یارماری کا اپنا دیرینہ سلوک کیاہے تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ البتہ اس ذلت کے بعد معلوم نہیں کہ پی ڈی پی نے کوئی سبق سیکھاہے یانہیں۔ بایں ہمہ ایک بات واضح ہے کہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی پوزیشن واضح طورپر کھوڈالی ہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ وہ اس سے اپنے سدھار کے لئے کوئی سبق سیکھتی ہے یانہیں لیکن پی ڈی پی سمیت بھاجپا کاتمام پارٹیوں کے ساتھ برا سلوک کر نا نہ صرف ناروا بلکہ تذلیل آمیز بھی ہے۔ اس لئے پی ڈی پی سمیت سبھی پارٹیوں کو بھاجپا کی بے وفائی اور مطلب پرستی سے پورا پورا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
بھاجپا کا جموں وکشمیر کے متعلق حمایت واپس لینے کا فیصلہ اس قدر انتخابی اغراض کے لئے مذہبی اور قومی شاؤنزم کا تیر چلانے کاموجب ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے صدر امت شاہ نے 2019کی انتخابی مہم شروع کرنے کے لئے جموں کا انتخاب کیاہے اور اُس دن کا انتخاب کیا ہے جب جن سنگھ کے صدر شیاما پرشاد مکرجی کا دن جموںمیںمنایا جارہاہے۔ اس پریواری تقریب میں شامل ہوکر وہ سارے ملک کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ جن سنگھ کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں اور جموںوکشمیر میں قومی و مذہبی شاد نزم پیدا کرکے سخت گیرانہ پالیسی پر گامزن ہوکر فیڈرل ازم کی بیخ کنی کرنے کے خواہاںہیں۔ وہ بھاجپا وزراء کی طرف سے ہوئی کورپشن اور بدعنوانیوں کے باعث جموں میں بھاجپا کی پست حالت اور عدم مقبولیت کو پھر سے بدل دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ بھاجپا کی اس نئی قلابازی سے ملک بھرمیں اور خود جموں خطہ میںکیانتیجہ برآمد ہوتاہے؟یہ دیکھنا توباقی ہے لیکن بھاجپا کا بے اصولاپن عوام الناس پراس قدر عیاں ہے کہ اب کسی بھاجپا لیڈر کی محاورہ بازی ، لفاظی اور فقرے بازی اُس کی پردہ پوشی نہیں کرسکتی ہے۔
اِس موقع پرتمام متعلقین اور جموںوکشمیر کے عوام کو خصوصی طورپر یہ امر ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ بھاجپا قیادت کے جموں وکشمیر میں حالیہ اقدامات سے ظاہر ہے کہ وہ گورنر راج کی وساطت سے ایک طرح اس ریاست میں تمام نام نہاد جمہوری روایات کو خیر باد کرکے براہِ راست بھاجپا راج کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں اور زیادہ سخت گیرانہ پالیسیاں اختیار کرے گی۔ اس سے پیشتر ازیں مسخ شدہ شہری آزادیاں مزید مسخ ہونے کا خدشہ ہے اور حالات بگڑنے کا مزید احتمال ہے ۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ سخت گیر یت سے پہلے سے برباد شدہ چلے آرہے انسانی اور شہری حقوق مزید برباد ہوںگے۔ دادا گری کا عمل مزید مزید تیز ہوگا،ماڑدھاڑ کی مزید فراوانی ہوگی،خون خرابہ میں نیا اضافہ ہوگااور تباہ شدہ جموںوکشمیر کی ریاست مزید تباہ کاریوں کے دائرہ میں آجائے گی۔ اس امر کا بھی اندیشہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات میںمزید اضافہ ہوجائے ، سرحدوں پر بھی جھڑپیں تیز ہوجائیںگی جو خدانخواستہ آگے بڑھ کر کسی چھوٹی موٹی جنگ کی شکل تک اختیار کرسکتی ہیں ۔ اگر ان پر قابو نہ پایاگیاتو کیا پتہ دونوں ممالک میں باقاعدہ جنگ چھڑ جائے ۔ یہ آتشیں ماحول سراسر جموں و کشمیر کے عوام کے لئے انتہائی خطرناک اور تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔اس وقت ہمیں اپنی اپنی جگہ فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے اورفرقہ پرستانہ مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کی ریشہ دوانیاں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کے سر کوئی نئی آفت یامصیبت نہ آئے۔ہم نے ہمیشہ اِس امر کی پُرزوروکالت کی ہے کہ جموںوکشمیر کا مسئلہ محض انتظامی یا امن وقانون کا مسئلہ نہیںہے بلکہ بنیادی طورپر ایک حل طلب سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا حل محض انتظامیہ یا ڈنڈے گولی کے نکتہ نظر سے دیکھناکسی طرح بھی واجب نہیں ہے۔ گزشتہ ستر سال کے عرصہ میںان نکتہ ہائے نظرسے اسے حل کرنے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں لیکن مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ، جب کہ جموںوکشمیر کے لوگ اس تنازعے کی بھٹی میں جھلس کر تباہ وبرباد ہوگئے ہیں۔ سیاسی ناکامیوں کی فضا میں انتظامی امور چلانے کے لئے متعدد بار ریاست میں گورنر راج قائم کیاگیا، ریاستی سرکاریں تبدیل کی گئیں لیکن جموںوکشمیر میں نہ امن قائم ہوسکا اور نہ ہی مسئلہ حل ہوسکا۔ گزشتہ تیس سال سے یہاں نامساعد حالات اپنے عروج پر ہیں۔ ایک طرف ملی ٹینٹ اور آزادی پسند اپنے کاز کے لئے صف آرا ء ہیں اوردوسری طرف مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں ان کے خلاف برسرپیکار ہیںلیکن کسی بھی فریق کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیںہوسکی ہے اور جموںوکشمیر کے چکی کے کئی پاٹوں میںپسا جارہاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دانشمندانہ دور اندیشانہ اور معاملہ فہمی کی پالیسی اختیار کرکے اصل مسئلے کا حل مزید نہ ٹالاجائے اور محض انتخابی اغراض کے لئے مسئلہ کشمیر کو زیر کار نہ لایا جائے۔۹۰ ء میںمیںجب جموںوکشمیر میں ملی ٹینٹ جدوجہد شروع ہوئی تو ریاستی حکومت مستعفی ہوئی اور یہاں گورنر راج قائم ہوا۔وقت کی انتظامی مشنری نے گورنر جگموہن کی قیادت میں سخت گیرانہ طریق کار سے حالات پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی اور آج تک یہ کوششیں ناکام چلی آرہی ہیں ، اُدھر ملی ٹینٹوں نے یہ سمجھا تھاکہ بندوق کی نالی سے وہ فوج پر غلبپ پاکر آزادی حاصل کرسکیںگے۔ ہم نے اُس وقت بھی بلا خوف و خطر اپنا عند یہ دیا تھا کہ نہ تو جبر وتشدد سے مزاحمتی تحریک کو دبایا یا کچلا جاسکتاہے اور نہ ہی ملی ٹینٹ محض بندوق کی نالی سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اس مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین باقاعدہ جنگیں ہوچکی ہیں اور پراکسی لڑائیاں بھی جاری ہیں لیکن نہ حکومت ہند اور نہ ہی حکومت پاکستان میںکسی کو اپنے مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ آج بھی صورت حال جوںکی توں قائم ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد اس جنگ وجدل میں قربان گاہوں کی زینت بن چکے ہیں۔،جن میں دونوں ممالک کے فوجی اور پولیس اہل کار بھی شامل ہیں، ملی ٹینٹ بھی شامل ہیں اور عام شہری بھی شامل ہیں۔ اس لئے لازمی بنتا ہے کہ تینوں فریق اس مسئلہ پر اَزسرنو حقیقت پسندانہ غور وفکر کریں اور باہمی مذاکرات شروع کرکے کسی مثبت اور قابل قبول نتیجہ پر پہنچ جائیں، وگرنہ مزید تباہیوں اوربربادیوں کو روکا نہیں جاسکتاہے۔ بھاجپا سرکار کی طرف سے تازہ سخت گیرانہ اقدامات کی وجہ سے ہوسکتاہے کہ عارضی طورپر حالات میں کچھ معمولی تبدیلی ممکن ہو لیکن کچھ عرصہ بعد پھر عوامی بے چینی اور سیاسی ناآسودگی سر اُٹھا کر خون خرابہ کا یقینی طور موجب بنے گی ۔ پیشترازیں بار بار دیکھا جاچکاہے کہ جب عارضی طو حالات میں بہتری یا ٹھہراؤ کودیرپا بہتری اور نارملسی سے تعبیر کیا گیا لیکن وقفہ وقفہ کے بعد پھر بے چینی نے سر اُٹھایا اور خون خرابے کا سلسلہ چل نکلا ۔ اس لئے جموںوکشمیرمیں پائیدار امن کے لئے لازمی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی مذاکرات ہوں اور مختلف الخیال جماعتوں کے درمیان بھی نتیجہ خیز مذاکرات ہوں۔ ان میںمزاحمتی تحریک اور جموںوکشمیر کے پانچویں خطوں کے نمائندگان کی شمولیت از بس لازمی ہو نی چاہیے تاکہ کوئی مکتب ِ فکر یا خطہ نظر انداز ہونے کے شکوے پر علم ِ بغاوت بلند نہ کرے اور سارا کیا کرایا ٹھپ ہوجائے۔ یہ مسئلے کا ایک پُرامن ، منصفانہ ، ہمہ گیراور دیرپا حل ہی ہے جس سے جموں وکشمیر میں مکمل طورامن وامان بھی قائم ہوسکتاہے اور جنوب مشرقی ایشیاء کے دونوںممالک ہندوستان اور پاکستان کے عوام بھی پُرامن زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ دوسرا کوئی قابل عمل راستہ دکھائی نہیںدیتا۔ بہر حال جموںوکشمیر میں بھاجپا کی مرکزی سرکار کے تازہ اقدام سے ممکن ہے کہ بھاجپا کو آئندہ 2019کے انتخابات میں اسے ووٹروں مین بیچ کر جزوی طورپر کوئی انتخابی فائدہ پہنچ سکے لیکن یہ اقدام نہ مسئلہ کشمیر کاکوئی حل نکال سکتے ہیں، نہ جموںوکشمیر میںامن وامان قائم کرسکتے ہیں اور نہ ہی جموںوکشمیر کے عوام کو درپیش مسائل کا کوئی مطلوبہ حل نکال سکتے ہیں۔ بھاجپا سرکار کی یہ کاروائی سراسر انتخابی مفادات حاصل کرنے کی ایک بھونڈی چال ہے اور اس کی سخت گیرانہ پالیسی سے برُے نتائج ہی متوقع ہیں، ان سے اچھے نتائج ہرگز نہیں برآمد نہیں ہوسکتے۔ موقع کی مناسبت سے ہم مرکزی حکمرانوں کو فیض ؔکا یہ کلام پڑھنے کی گزارش کرتے ہیں ؎
ستم سکھلائیں رسم ِوفاایسے نہیںہوتا
صنم دکھلائیںگے راہ ِ خدا ایسے نہیںہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
میرے قاتل حساب خون بہا ایسے نہیںہوتا
جہان ِ دل میں کام آتی ہیں نہ تدبیریں نہ تقریریں
یہاں پیمان ِ تسلیم و رضا ایسے نہیںہوتا
ہر اِک شب، ہرگھڑی گذرے قیامت یوںتو ہوتاہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزاایسے نہیںہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں، گردشوں میں آسمان سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہوچکا ایسے نہیںہوتا