رہبر ِکھیل اساتذہ کی بھی سنیں!
ہم تمام رہبر کھیل اساتذہ حکومت جموں کشمیر سے مودبانہ گزارش کرتے ہیںکہ ہماری جائز مانگوں کو بغیر کسی تاخیر کے پورا کیا جائے۔اس مہنگائی کے دور میں جو ماہانہ اجرت حکومت ہمیں ادا کرتی ہے،وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہم اپنی جوانی کی قیمتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خون پسینہ بہاکر حکومت کے خاکوں میں رنگ بھررہے ہیں اور اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔نہ جانے ہم نے کون سی ایسی خطائیں کی ہیں کہ ارباب اقدار ہماری گزاشات کو سنی ان سنی کرتے ہیں۔ تمام رہبر کھیل اساتذہ اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔کئی ایسے ہیںجنھوں نے پی جی،پی ایچ ڈی،ایم فل کی ڈکریاں حاصل کرکے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں میرٹ کی بنیادوں پر نوکریاں حاصل کی ہیں۔آج کل عام مزدور بھی روزانہ کے حساب سے چھ سات سو روپیہ کماتا ہے اور حکومت ہمیں روزانہ کے حساب سے صرف 100 روپیہ اجرت واگزار کرتی ہے جوہمارے ساتھ سراسر ناانصافی، ظلم، اوربے عزتی ہے۔
ہم تمام قوم کے معمار احترام کے ساتھ لیفٹنٹ گورنر جی سی مرمو صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذاتی طور اس اہم معاملے میں مداخلت کرکے ہماری درینہ مانگ پورا کرکے شکریہ کا موقعہ فراہم کریں۔ہم پُر امید ہیں کہ ہمارے اس مطالبہ پر نظر ثانی کرکے ہماری ملازمت کو باقائدہ بنایا جائے گا اور ایک جائز و مناسب تنخواہ واگزار کی جائے گی تاکہ ہم بھی اپنی سوسائٹی میں عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔
سید اعجاز ۔ڈورو سوپور
ہوئے ہم خود کے لئے بُرباد!
مکرمی ایڈیٹر صاحب! میرے اس مراسلے کو شائع کرنے میںشائدآپ قباحت محسوس کریں لیکن میں حق بات کہنے میں کوئی جھُجک محسوس نہیں کرتا ہوں کہ اپنی اس داویٔ کشمیر میں گذشتہ تیس پنتیس برسوں کے دوران یہاں کی سیاسی اور عسکری تحریک نے جو نقوش کشمیری معاشرے پر چھوڑے اور کشمیریوں کی روز مرہ زندگی پر ثبت کردئے ہیں وہ بہت ہی المناک اور کربناک ہیں۔اس عرصہ کے دوران بے تحاشا انسانی جانوں کا اتلاف ،املاک کی تباہی ،اقتصادی بد حالی ،لاقانونیت ،لوٹ کھسوٹ ،قتل و غارت گری اورکورپشن کے ساتھ دوسری معاشرتی بُرائیوں نے کشمیر کو دہشت و وحشت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔وادی کا چپہ چپہ ستم رسیدہ کشمیری کے آنسواور سسکیاں لئے ہوئے ہمدردی اور مروت کا محتاج بن چکا ہے۔ہر کسی ذی ہوش کے ذہن میں یہ بات بار بار ٹھوکر مار رہی ہے کہ ہم کہاں ہیں،کدھر جارہے ہیں اور ہمارا نصب العین کیا ہے؟عرصہ دراز سے وادی میں امن وا مان کی انتہائی بگڑی ہوئی صورت حال ،سیاسی افرا تفری ،معاشی بدحالی ،بے روزگاری ،کورپشن ،ناجائز منافع خوری ،ناانصافیاں اور خون خرابہ نے تو ہر کسی کو پریشان حال بنا دیا ہے۔روزانہ جب صبح اخبارات پر نظر پڑتی ہے تو سوائے مایوسی وبد امنی اور لاچاری کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا ۔ایک طرف جہاں وبائی بیماری کورونا کی تباہی کی باتیں درج ہوتی ہیںاور لاک ڈاون کی صورت حال برقرار ہے، تو دوسری طرف کسی علاقے میں فورسز اور جنگجوئوں میں جھڑپ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تفصیل ہوتی ہے۔کسی گھر کو بارود سے اُڑایا جاتا ہے ،کہیں بندوق کی نوک پر گھرکا صفایا ہورہا ہے،کسی گھر میں گھُس کر لوگوں کو گولی ماری جاتی ہے اورکہیں کسی پرسرِ راہ فائرنگ کی جاتی ہے ،بے جا طریقے پر گرفتاریاں کی جاتی ہیں اور کہیں پر کوئی لاش بھی برآمد ہورہی ہے۔غرض کہ ہر معاملہ مشکوک بنتا جارہا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اور اس سے کیا حاصل کیا جارہا ہے، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ پریشانیوں میں مبتلا عام آدمی کاتو کوئی پُرسان حال ہی نہیںجو محض اپنی روٹی روزی کی فکر میں مبتلا ہے ۔جس سے یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ پوری قوم کو خاموشی ،بے حسی اور بے مروت اپنے حال میں مگن رہنے کی عادت پڑگئی ہے۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ ہم شروع سے ہی باہمی نفاق کے شکار ہیں،جس کے نتیجے میں آج تک ہمیں کوئی ایسی سیاسی ،سماجی ،دینی قیادت حاصل نہ ہوسکی جو ہمارے اجتماعی مفادات کے تحفظ کی ضامن ہوتی۔تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی بکھری ہوئی قوم یا معاشرے کے لئے اپنے پیچیدہ اور حساس مسئلے طے کرنے کے راستے بھی نکل آتے ہیں تو انہیں منزل مقصود کی طرف پیش قدمی کی طاقت ہی نہیں ہوتی کیونکہ باہمی نفاق،چپقلش اور کشیدگی نے انہیںفکری،ذہنی اور جسمانی طور پر کھوکھلا کردیا ہوتا ہے۔میرے خیال میں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سب کچھ ہوچکا ہے اور اب بھی ہورہا ہے۔حق بات تو یہ بھی ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کے دُکھ درد سے آنکھیں پھیرلیتے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش ہوجاتے ہیںاورخود غرضی و لالچ کے تحت صرف انفرادی مفادات کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں تو ایسے حالات میںایسی بے بس ،ایسی بے مروت اور ایسی بے حِس قوم پر خدا بھی عذاب ہی نازل کرتا ہے۔
نور محمد ۔باغ مہتاب سرینگر
لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے
موجودہ انتظامیہ لوگوں کے مسائل اور عوامی بہبود کے کاموں کو بدستور نظر انداز کررہی ہے۔اہم نوعیت کے مسائل حل کرنے میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں دکھائی جا رہی ہے جبکہ وہ پچھلے دو ڈھائی مہینوں سے وبائی بیماری کورونا کی آڑ میں عوام کو درپیش دیگر مسائل بالکل ہی بھول چکی ہے۔ایک طرف شہر کے ایک مخصوص حصے، جسے سول لائنز کا نام دیا گیا ہے ،پر کسی حد تک تو توجہ دی جارہی ہے تو دوسری طرف شہر کے ڈائون ٹائون ایریا اور دوسرے حصوں کو بالکل نظر انداز کررہی ہے۔حالیہ برسوں کے دوران جس انداز سے شہر سرینگر بہت تیزی کے ساتھ پھیل گیا اور آبادی میں اضافہ ہوا ہے اُسی انداز سے شہر کے مسائل میںاضافہ ہوا ہے۔اگرچہ لاک ڈاون کے دوران آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم شکستہ حال سڑکوں اور زیر تعمیر شاہراہوں کو بیچ میں ہی التوا میں ڈال کر انہیں چیچک زدہ بناکے رکھ دیا گیا ہے۔جہاں کہیں بھی سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لئے مختلف تعمیرات ہٹادئے گئے ہیں ،اُن میں سے اکثر سڑکوں پر بھرائی اور دیگر تعمیراتی کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔جس سے وہ کھنڈرات کی صورت اختیار کرکے آلودگی کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہیں۔اندرونی گلی کوچے اور خستہ حال نالیاں اور ڈرنیج سسٹم بھی انسانی صحت پر بُرا اثر ڈال رہی ہیںبلکہ اس سے دوکانداروں اور منسلک رہائشی مکینوںکو زبردست کوفت اٹھانا پڑتی ہے ۔اس طرح کی ایک اور صورت حال پینے کے پانی کی فراہمی کا ہے۔بیشتر علاقوں میں عشروں قبل جو پائپ لائنیں بچھائی گئیں تھیں وہ زنگ آلودہ ہونے کے باعث صارفین کو پانی فراہم کرنے میںناکارہ ثابت ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں بیشتر لوگ پینے کے پانی سے محروم ہوجاتے ہیں اور جن پائپوںسے پانی فراہم ہورہا ہے ان میں سے بیشتر پائپیں خشک ہی رہتی ہیں ۔نیز کئی سرکاری راشن گھاٹوں سے صارفین کو مخصوص مقدار میںاور مقررہ قیمتوں پر غذائی اجناس، چاول اور آٹا بھی فراہم نہیں ہورہا ہے بلکہ راشن گھاٹوں پر تعینات کارندے جو کہ کورپشن کے پرانے مریض ہیں، من مانے ڈھنگ سے صارفین کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ہماری ریاستی انتظامیہ کے ذمہ دار آفیسران سے گذارش ہے کہ وہ اپنے فرائض ِ منصبی کا لحاظ رکھ کر لوگوں کو درپیش ان مسائل کی طرف توجہ دیں تاکہ وبائی بیماری اور لاک ڈاون کے باعث پریشان حال لوگوں کو کسی حد تک راحت حاصل ہوسکے۔
شبیر احمد ڈار۔ڈلی پورہ سرینگر
کشمیر میں زرعی انحطاط
اب تو راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں!
غذا کیلئے زرعی اراضی کا ہونا ضروری ہے۔ساری غذا زمین سے پیدا کی جاتی ہے۔ایسے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زمین کے بغیر خوراک کا تصور محال ہے لیکن اس کے باوجود زرعی زمین کو غیر زرعی استعمال میں لایا جارہا ہے۔ لاکھوں کنال زرعی زمین کو پختہ جنگل میں تبدیل کیا گیا۔ایک وقت تھا جب کشمیر خوراک کے معاملے میں کم و بیش خود کفیل تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ جواہر ٹنل چند دن بند ہوجاتی ہے تو کہرام مچ جاتا ہے ۔سرکار نے علامتی طور آبی زمین پر تعمیری استعمال پر پابندی تو عائد کردی ہے لیکن سرکار کی ناک کے نیچے بلکہ خود سرکار کے بیشتر اعلیٰ عہدیداروں نے آبی زمین پر ہی اپنے نشیمن تعمیر کئے ،نتیجہ یہ ہوا کہ زرعی زمین سکڑتی گئی اور اب دانے دانے کیلئے جموںوکشمیر کو پنجاب اور دیگر ریاستوں سے درآمد ہونے والے اناج کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔چاولوں سے لیکرگندم اور یہاں تک کہ سبزیاں بھی باہر سے آتی ہیں۔مردم شماری2011 کے اعدادوشمار کے مطابق ریاست میں کاشتکاروں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جارہی ہے اور جہاں 1961کی مردم شماری میں ریاست میں کاشتکاروں کی شرح75فیصد ریکارڈ کی گئی تھی وہیں گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران یہ شرح بتدریج گھٹ کر اب محض28.8فیصد رہ گئی ہے، جس کا سیدھے سادھے الفاظ میں یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ ریاستی عوام کی غالب اکثریت اس آبائی پیشہ کو خیر باد کہنے پر کمربستہ ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ زرعی سرگرمیوں کو ترک کرکے غیر زرعی سرگرمیوں میں اپنامعاش تلاش کررہے ہیں۔
دوسری جانب آبا دی کا پھیلائو بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں تک سرینگر شہر کا تعلق ہے تو شہر اب اتنی وسعت پاچکا ہے کہ یہ جہاں جنوب میں پلوامہ ضلع کے حدود میں داخل ہوچکا ہے وہیں وسط میں بڈگام ،شمال میں بارہمولہ ،بانڈی پورہ اور گاندربل اضلاع کی حدود میں شہر سرینگر کی کئی کالونیاں آباد ہوچکی ہیں۔غور طلب ہے کہ تمام کالونیاں زیادہ تر غیر قانونی اور بے ترتیب ہیں تاہم اس میں لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔آبادی بڑھتی جارہی ہے۔اس صورتحال میں رہائشی مکانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا فطری امر ہے۔آخر لوگوں کو سر چھپانے کیلئے آشیانے تعمیر کرنے ہیں ،انہیں جہاں زمین ملی ،مکان تعمیر کیا۔شہر اور اس کے مضافات میں آج کل جو کالونیاں تعمیر ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں ،وہاں کبھی لہلہاتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے۔اس طرح ہمیں مکانات تعمیر کرنے کیلئے اپنی زرعی اراضی کی قربانی دینا پڑرہی ہے حالانکہ ریاست میںجموں و کشمیر زرعی اصلاحات قانون اور جموں و کشمیر ریونیو ایکٹ کی صورت میں واضح قوانین موجود ہیںجن کے تحت آبی اول زمین پر مکانوں کی تعمیر پر ممانعت ہے۔اس کے باوجود یہ مکان کیسے تعمیر ہورہے ہیں ،ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی شایدضرورت نہیں۔
عوامی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ اس رجحان کو ،جس کی وجہ سے اناج کی پیداوار میں دن بہ دن ریاست کی محتاجی میں اضافہ ہورہاہے ، کو بالواسطہ کیوں تقویت پہنچائی جارہی ہے کیونکہ ریاست میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران زرعی اراضی اس قدر سکڑ چکی ہے کہ اب شہر کے مضافات میں خال خال ہی کہیں دھان کے کھیت اور سبزیوں کی کیاریاں نظر آتی ہیں۔رہی سہی کسر ریلوے لائن اور ایکسپریس ہائی وے کی تعمیر نے پوری کردی ہے جس نے ہزاروں کنال زرعی اراضی کو نگل لیا ہے۔اس طرح جتنی جتنی زمین کم ہوتی جائے گی ،ہم اناج کے ایک ایک دانے کیلئے بیرون ریاست سپلائی کے محتاج بنتے جائیں گے اور اگر اس عمل کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں ہوگاجب ہمارے پاس اپنی کوئی پیداوار نہ ہوگی بلکہ ہمیں بیرونی پیدوار پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔اس پالیسی سے جہاں ہماری معیشت تباہ ہوکر رہے گی وہیں ہماری خود انحصاری کا جنازہ نکلے گا کیونکہ زرعی معیشت کے سکڑتے جموں وکشمیرمیں کوئی متبادل معیشت فروغ پذیر نہیں ہو پارہی ہے۔ صنعتی فروغ کی تو بات ہی نہیں ،یہاں کی مقامی معیشتوں،جن میں دستکاریاں شامل تھیں، کا جنازہ بھی نکل چکاہے۔ایسے میں زراعت ایک کلیدی شعبہ ہے جس پر تکیہ کیا جاسکتا تھا مگر شہر تو شہر دْور دَراز دیہات میں بھی زرعی اراضی تہس نہس ہورہی ہے۔سرکار کو بڑھتی آبادی کے پیش نظر لوگوں کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کیلئے زرعی اراضی کو ختم نہیں کرنا تھا بلکہ سرکار کے پاس اس اراضی کی کمی نہیں جہاںپر ایک منظم طریقہ پر رہائشی کالونیاں تعمیر کی جاسکتی تھیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا ،اس کا جواب بہتر انداز میں سرکار ہی دے سکتی ہے۔
سرکار کی اس سنگین معاملہ کے تئیں عدم دلچسپی اس لئے بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ زرعی اراضی کی تمام اقسام پر تعمیرات پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس قانون بنانے میں دلچسپی دکھائی نہیں جارہی ہے۔ جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں بھی اس بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی پہلوئوںپر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنی چاہئے۔لوگ ضرور عالیشان مکان بنائیں۔انہیں آرام سے زندگی بسرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکو دائو پر لگا کر کریں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رہائشی تعمیرات کے وقت ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زرعی زمین محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ بنجر زمین اور کاہچرائی ہی رہائشی مقاصد کیلئے استعمال ہو۔اس منصوبہ پر جتنی جلدی عمل کیا جاتا ہے ،اتنا ہی بہتر رہے گا ،ورنہ ہم سب راشن کی قطاروں میں ہی نظر آتے رہیں گے جو کوئی اطمینان بخش صورتحال نہیں ہوگی۔