مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے حریت کانفرنس اور پاکستان کےساتھ بات چیت کےلئے نئی دہلی کی آمادگی کے اظہار کو موجودہ حالات کے پس منظر میں اگر ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ گزشتہ ایک برس سے جہاں کشمیر کے اندر ہلاکتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے وہیں حد متارکہ پر آئے روز شہری آبادیوں کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے جنگ جیسی صورتحال کا سامنا ہے اور دونوں صورتوں میں بے گناہ شہریوں کی جانوں کا اتلاف عمل میں آرہا ہے اور یہ صورتحال حالات میں سدھار کی کسی صورت کو سامنے نہیں آنے دے رہی ہے۔ بھلے ہی حکومت ریاست کے اند شہری ہلاکتوں کو جائز ٹھہرانے کےلئے مختلف اور متنوع قسم کے دلائل پیش کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک بھر میں مثبت اور جمہوری سوچ رکھنے والے عناصر کسی بھی صورت میں اسے تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں اور تو اور بین الاقوامی سطح پر جس فورم میں بھی جموںوکشمیر کی صورتحال کا ذکر چھڑتا ہے تو بھارت اور پاکستان پر واضح لفظوں میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ مثبت طرز فکر اختیار کرکے تعمیری خطوط پر مذاکرات کے ذریعہ صورتحال کی شدت کم کرنے کی کوشش کریں۔اس سے قبل جب مرکز کی طرف سے ماہ رمضان کی آمد کے سلسلہ میں فوجی آپریشن روکنے کا اعلان کیا گیا تھا تو کم و بیش سبھی سیاسی و سماجی حلقوں نے اسکا خیر مقدم کرکے یہ اُمید ظاہر کی کہ سیز فائر کو رمضان کے بعد بھی وسعت دیدی جائے گی اور اب تک کے اندازوں کے مطابق حکومتی و سیکورٹی حلقوں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے۔ کیونکہ آنے والے ایام میں امر ناتھ یاترا شروع ہونے جارہی ہے اور ہر کوئی شخص اسکے بحفاظت انجام پانے کا متمنی ہے۔ اب چونکہ وزیر داخلہ کے بیان سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ مرکزی حکومت صورتحال کو سنبھالا دینے میںکسی حد تک سنجیدہ نظر آرہی ہے تو لازمی ہے کہ وہ بھی بات چیت کے ماحول کو پروان چڑھانے کےلئے مسئلہ کشمیر کے بنیادی حقائق کا اعتراف کرکے ایسے ماحول کی تشکیل میں معاونت کرے، جس میں علیحدگی پسند خیمے کا سامنے آنا یقینی بن سکے۔ وگرنہ اگر مسئلہ کشمیر کا حل صرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حصول سے منسلک کرکے، کشمیر کے اس حصہ کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی منطق برقرار رکھی گئی تو ظاہر بات ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان یا پھر مزاحمتی خیمہ کےلئے سامنے آنے کے راہیں مسدود ہوجائینگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی دہلی اپنے روایتی مؤقف میں لچک پیدا کرکے مسئلے کے بنیادی پہلوئوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرے تو یقینی طور پر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان میں آنے والے ایام میں جنرل الیکشن ہو رہے ہیں اور آئندہ برس بھارت میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں، لہٰذا دونوں ممالک کے برسراقتدار حلقوں کےلئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ صورتحال کو سنبھالا دے کر مثبت بنیادوں پر عوام کے سامنے آسکیں۔ چونکہ ماضی میں مرکزی حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ اس طرح اعلانات ہوتے رہے ہیں، لیکن اس س حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ وقتی اُبال کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوسکا بلکہ کئی قائدین کو بعد اذاں اسکا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اگر کوئی یہ سوچنے بیٹھے کہ مزاحمتی خیمہ وزیر داخلہ کے اظہار پر دوڑتے دوڑتے سامنے آئے تو شاید درست نہیں ہوگا۔من حیث المجموع سبھی حلقوں کو اپنے مواقف میں اس قدر نرمی لانی ہوگی جو ایک دوسرے کو مذاکراتی ماحول میں کھڑا رہنے کا موقع اور حوصلہ بخشے۔ اس کےلئے فوری طور پر سیاسی بیان بازیوں کے ذریعے پوائنٹ سکورنگ سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعلیٰ سے لیکر وزیراعظم تک سبھی اُن عوامل سے بخوبی باخبر ہیں جو کشمیر کے اندر اور سرحدوںپرکشیدگی کے باعث بن جاتے ہیں۔اگر اُن عوامل کو ایڈرس کیا جاتا ہے تو کشیدگی خود بخود ختم ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے جرأتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے اور جب تک قومی نوعیت کے فیصلے ووٹ بنک سیاست سے مشروط رہیں ،اُس وقت تک کسی بڑے اور دلیرانہ فیصلہ کی امید رکھنا ہی عبث ہے ۔فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملکی سطح پر کشمیر کے حوالے سے جارحانہ مؤاقف سے احتراز کرکے ریاستی عوام کے جذبات کو ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے اور خلوص و سنجیدگی سے ہی مفاہمت مخاصمت پر غالب آسکتی ہے اور امن و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔