کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی رول رکھنے والاشعبہ تعلیم جموں وکشمیر ہمیشہ غلط وجوہات کی بناء پر خبروں میں رہا ہے اور حکومت کی جانب سے بارہا اعلانات کے باوجود اس شعبہ میں قابل ذکر سدھار نہیں آرہا ہے بلکہ اگر اعدادوشمار کو دیکھاجائے تو یہ شعبہ بھی دیگر شعبوں کی طرح ریاست میں فقط روزگار کی فراہمی اور اپنے منظور نظرافراد کو اپنی من پسند جگہوں پر تعینات کرانے تک ہی محدود رہا ہے جبکہ آج بھی ہزاروں بچے اپنے دیہات میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے نور سے محروم ہیں۔مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی ایک رپورٹ کے مطابق جموںوکشمیرمیں بالترتیب 3622اور3714بستیاں پرائمری اورمڈل سکولوں سے محروم ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق تقریباً13فیصد بستیاں مجموعی طور پر تعلیمی اداروں کے بغیر ہیں جس کے نتیجہ میں 7ہزاسے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ 28ہزاربچوں کو نزدیکی بستیوں میں قائم سکولوں میں جانا پڑتا ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت سرو شکھشا ابھیان کے تحت تاحال ان بستیوں کے نقشے تیار کرنے میں ناکا م ہے جہاں تعلیمی ادارے قائم نہیں ہیں۔ایک طرف یہ حالت ہے تو دوسری جانب یہ انکشافات بھی ہوتے رہے ہیں کہ کئی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ سکول قائم گئے ہیں اور اب حکومت ان سکولوں کو نزدیکی سکولوں میں ضم کررہی ہے۔مرکزی حکومت نے سر و شکھشا ابھیان اور دوسری وقاری سکیمیں اس غرض سے شروع کیں تاکہ صد فیصد شرح خواندگی حاصل کی جاسکے اور ایک اچھے مقصد کیلئے خربوں روپے ریاست کو فراہم کئے گئے ۔گوکہ ان سکیموں کی وجہ سے ملک کی دوسری ریاستوں میں شعبہ تعلیم کی کایا پلٹ گئی اور ایک انقلاب بپا ہوگیا تاہم جموں وکشمیر میں حسب روایت یہ سکیمیں مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی بجائے رشوت ستانی کا باعث بن گئیں۔آج ہم جن بغیر طالب علموں کے سکولوں کا رونا رورہے ہیں ،اس کی وجہ بھی رشوت ستانی اور کنبہ پروری ہے ۔کون اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ اور پیسوں کے لین دین کے بل پر مرکزی معاونت والی سکیموں کے تحت جموںوکشمیر کے یمین و یسار میں قوائد و ضوابط کی دھجیاں اڑاکر ایسی جگہوں پر سکول قائم کئے گئے یاپہلے سے موجود سکولوں کا درجہ بڑھایاگیا جہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود سکول صرف اس لئے کھولے گئے تاکہ منظور نظر امیدواروں کیلئے روزگار کی کوئی سبیل نکالی جاسکے ۔جموںوکشمیرمیں اس وقت جو رہبر تعلیم اساتذہ کی فوج تیار ہے ،وہ ایسی سکیموں کے تحت سکولوں کے بے دریغ قیام کا نتیجہ ہی ہے ۔محکمہ تعلیم کے افسران اور سیاسی لیڈران اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں تاہم حقیقت یہی ہے کہ محض ووٹ بنک سیاست اور بھاری رقوم کے عوض سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور نتیجہ یہ نکلا نہ ان سکولوں میں پڑھنے کیلئے اب بچے ہی میسرنہیں ہیں جبکہ دوسری جانب ابھی بھی سینکڑوں دیہات سکولوں کیلئے ترس رہے ہیں اور وہ سیاسی پہنچ نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی بستیوں میں سکول قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ان وقاری سکیموں کے تحت جابجا سکول تو کھولے گئے جہاں اب نہ ان سکولوں میں درکار ڈھانچہ میسر ہے اور نہ ہی سکولوں کو زینت بخشنے والے طالب علم موجود ہیں ،نتیجہ کے طور پر وہاں کام کررہے اساتذہ بیٹھے بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں اور یوں خزانہ عامرہ کو دو دوہاتھوں لوٹا جارہا ہے ۔یہ اس صورتحال کا ایک پہلو ہے ۔اس دردناک صورتحال کا دوسرا اور تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں نجی تعلیمی اداروں کی طوطی بولنے کے بعد سرکاری سکولوں تقریباً خالی ہوچکے ہیں اور وہاں پڑھنے کیلئے کوئی جاتا ہی نہیں ہے تاہم ان سکولوں میں درجنوں اساتذہ تعینات ہیں اور وہ دن بھرگپے ہانکنے میں مصروف رہتے ہیں۔جب معاملہ کی گہرائی میں جایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اساتذہ انتہائی منظور نظر ہیں اور بیشتر یاتو سرکاری افسران کے رشتہ دار ہیں یا پھر طاقتور سیاسی لیڈروں سے قربت رکھتے ہیں اور ان کو کوئی ہاتھ لگانہیں پارہا ہے بلکہ جان بوجھ کر ایسے سکولوں میں انکا تبادلہ یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ انہیں زیادہ ڈیوٹی دینے کی زحمت گوارا نہ کرنا پڑے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کو ان تلخ حقائق کا علم نہیں ہے بلکہ بارہا کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا سمیت دیگر تحقیقی اداروں نے ان خامیوں کی جانب نشاندہی کرکے اصلاح احوال کی سفارش کی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر نہ ہی سکولوںاور کالجوں کے غیر ضروری پھیلائو کو روکا جارہا ہے اور نہ ہی اساتذہ اور طلاب کے درمیان شرح تناسب کو متوازن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور ہے کہ جموںوکشمیرمیں ہزاروں سکول ایسے بھی ہیں جہاں زیر تعلیم طالب علموں کو پڑھانے کیلئے اساتذہ میسر نہیں ہیں اور اس کے باوجود 5ہزار سے زائد ایسے سکول بھی ہیں جہاں طالب علم یا تو سرے سے ہی نہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں اساتذہ کی بھرمار ہے ۔اگرجموں وکشمیر کوتعلیم کے شعبہ میں ایک مثالی علاقہ بنانا ہے تو حکومت کو فوری طور شعبہ تعلیم کی اس گفتہ بہہ حالت کی جانب توجہ دینا ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ شعبہ محض روزگار کی فراہمی تک محدودنہ رہے بلکہ معیاری تعلیم مطمح نظر ہونا چاہئے تاکہ جموںوکشمیر بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہوسکے۔اس ضمن میں سکولوں کے قیام میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی لازمی ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کے نور سے منور ہونے کا موقعہ میسر ہو اور اس کیلئے ہر جگہ سکول قائم کرنے کے علاوہ اساتذہ اور طلاب کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے ۔