ہماری ریاست میں محکمہ بجلی سے وابستہ کامگاروں کے حالاتِ کار کس قد ر اندوہ ناک ہیں اس کا مشاہدہ گزشتہ روز ساری دنیا نے سوشل میڈیا پر اُس وقت کیا جب بڈشاہ چوک سرینگر میں بجلی کی مرمت کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے ایک مزدور تڑپ ترپ کر جاں بحق ہوا جبکہ دوسر ے کو بعد مشکل بچالیا گیا تاہم اُسکی حالت ہسپتال میں بدستور نازک بنی ہوئی ہے یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقع نہیں تھا بلکہ اس نوعیت کی اندوہ ناک خبریں ریاست کے مختلف حصوں سے آئے روز آتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہی صرف وادی کشمیر میں اس نوعیت کے آٹھ واقعات پیش ٓائے، جن میں پانچ اہلکاروں کی موت واقع ہوئی جبکہ3زخمی حالت میں ابھی بھی زیر علاج ہیں اور ایک شخص اپنے بازو سے ہاتھ دو بیٹھا ہے۔ گزشتہ برس جموں خطے میں بھی ایسے کئی حادثے رونما ہوئے، جن میں بانہال میں پیش آیا واقع انتہائی دلدوز تھا، جس میں قرب وجوار کے لوگوں نے ایک لائن مین کو شعلوں کی لپیٹ میں تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوے دیکھا تھا۔ اگر چہ میڈیا کی جانب سے ان کامگاروں، جن میں کیجول لیبر، نیڈ بیسڈ لیبر او رعام اُجرت پر کام کرنے والے مزدور شامل ہیں، کی حالت زار کو بار بار سامنے لایا گیا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔جسکا یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ یہ بے بس اور مجبور لوگ متواتر حکومت کی بے حسی کا شکار ہو رہے ہین اور انکے پیچھے اُنکے کنبے بے پناہ مصائب اور مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ محکمہ بجلی میں فی الوقت دس ہزار کے قریب نیڈ بیسڈ اور کیجول اہلکار کام کر رہے ہیں اور انکےلئے عمومی قواعد پر ملازمت کا کوئی احاطہ ہی نہیں ہے جسکی بنا پر حادثات پیش آنے کی صورت میں محکمہ کی جانب سے انکے علاج و معالجہ یا انکی موت کی صورت میں انکے اہل خانہ کی کوئی مالی اعانت نہیں ہو پاتی ہے، نتیجے کے طور پر ایک ایسا ورک فورس جو ہمارے گھروں میں اُجالا کرنے کےلئے اپنی جانیں دائو پر لگاتا ہے، اسکے اہل خانہ دائمی تاریکی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ محکمہ کے ملازمین کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ محکمہ میں سالانہ کم و بیش ایسی پندرہ ہلاکتیں پیش آتی ہیں جبکہ زخمیوں میں سے متعدد عمر بھر کےلئے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر انکی حالت زار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے، حتاکہ ریگولر ملازمین، جو اعانت اور ہلاکت کی صورت میں انکے پسماندگان ملازمت حاصل کرنے کے حقدار ہوتے ہیں، کو بھی سالہا سال تک اپنے حق کے لئے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اگر چہ محکمہ میں اہلکاروں کے امورِ کار کےلئے معیاری ضابطہ کار (SOP) موجود ہے لیکن اس پر شاز و نادر ہی عملد رآمد ہوتاہے اور عام طور پر کسی اہلکار کو بجلی کی تاریں ٹھیک کرتے وقت ایسے ساز و سامان سے لیس نہیں دیکھا جاتا، جو کسی ناخوشگوار صورتحال میں اس کی جان بچانےکا سبب بن سکے۔ پاور کی سپلائی بند کرکے لیبروں کو ننگی تاروں کے ساتھ نبرد آزماء ہونے کے دوران اچانک پاور سپلائی کی بحالی کیسے ممکن ہو پاتی ہے اسکاکوئی معقول جواب نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کےلئے کوئی ذمہ داری مخصوص کی جاتی ہے۔ اگر چہ بڈشاہ چوک واقع کے بعد کچھ اہلکاروں کو معطل کرکے محکمانہ و پولیس تحقیقات کے احکامات صادر کئے گئے ہیں تاکہ حادثہ کی ذمہ داری کا تعین کا جاسکے تاہم اس حوالےسے محکمہ کو اپنی بنیادی پالیسی اور کار گزاری میں تبدیلی لاکر ابتدائی طور پر ایسے کام کرنے والوں کے لئے حفاظتی ساز و سامان کی فراہمی ممکن بنانی چاہئے، نیز حادثات کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھر پائی کا نظام وضع کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں کم از کم ایسے عملہ یا کام پر لگائے جانے والے مزدوروں کے انشورنس کے بند و بست کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ رات گئی او ربات گئی کے مصداق ایسے حادثات عام لوگوں کے ساتھ ساتھ محکمہ کی یاداشت سے بھی محو ہو جاتے ہیں، لیکن جن لوگوں کے ساتھ ، خواہ وہ محکمہ کے مستقل ملازم ہوں، نیڈ بیسڈ یا کیجول اہلکار ہوں یا اُجرت یافتہ مزدورہوں، ایسے حادثات پیش آتے ہیں انکے اہل خانہ کو برسہا برس تک اپنے سینوں پر دہکتے انگاروں کی طرح یہ مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔