اشفاق سعید
سرینگر //محکمہ بجلی نے بقایا جات کی وصولیابی کے ضمن میں ایک دوہرا معیار قائم کر رکھا ہے اور اسکے اقدامات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی حکومت نے قریب 10ہزار کروڑ بجلی فیس کے بقایاجات کی وصولی میں رعایت دینے کی ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی ہے جس میں بار بار توسیع کی جارہی ہے۔اس سکیم کا مقصد 6 لاکھ گھریلو بجلی صارفین کو بقایا بجلی کے واجبات سے راحت فراہم کرنا ہے۔ ایک طرف عام صارفین سے واجبات کی وصولی کیلئے رعایتی سیکم متعارف کی گئی ہے لیکن دوسری طرف ان جیسے دوسرے عام صارفین کی طرف سے کوئی غلطی کرنے پر انکی سپلائی لائنیں کاٹ دی جاتی ہیں۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ محکمہ بجلی کی طرف سے موسم سرما شروع ہونے کیساتھ ہی ٹیمیں مقرر کی جاتی ہیں جو شہر و دیہات میں صبح و شام یا رات کے دوران بجلی چوری کا قلع قمع کرنے کیلئے چھاپہ مار کارروائی کرتے ہیں۔اس طرح کی کارروائیاں بہت ضروری ہیں کیونکہ اس سے بجلی چوری کے ناسور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔محکمہ بجلی کا کہنا ہے کہ سمارٹ میٹرعلاقوں میں بجلی چوری ، جو پہلے 60 سے 70فیصد ہوا کرتی تھی اب محض 10فیصد سے کم رہ گئی ہے۔پچھلے سال وادی میں ایسے 25فیڈروں میں 24گھنٹے بجلی فراہم کی گئی جہاں بجلی چوری صفر تھی۔لیکن محکمہ بجلی نے اس معاملے میں بالکل دوہرا معیار قائم کر رکھا ہے۔اگر ایک طرف صارفین کیلئے ایمنسٹی سکیم جاری ہے تو دوسری طرف غلطی کرنے والے صارفین کے کنکشن منقطع کرنے کا ظالمانہ فیصلہ نہیں لیا جاسکتا۔حالانکہ الیکٹرسٹی ایکٹ میں اس کو سب سے پہلے اپنانے کے بجائے آخری حربہ کے طور استعمال کرنے کی بات کہی گئی ہے۔لیکن یہاں محکمہ بجلی جرمانہ کیساتھ ساتھ فوری طور پر بجلی منقطع کرنے کی کارروائی شروع کرتا ہے۔جو سزا آخر میں دی جانی تھی یہاں سب سے پہلے دی جاتی ہے۔ کشمیر عظمیٰ کو سینکڑوں صارفین نے بتایا کہ ان سے بجلی چوری کی بے شک غلطی ہوئی ، اور سزا کے طور پر ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک غلطی کیلئے2 سزائیں دی جائیں۔انکا کہنا ہے کہ جرمانہ اور بجلی منقطع کرنا کسی بھی قانون میں نہیں لکھا ہوا ہے۔ان صارفین نے مزید کہا کہ جرمانہ کی رقم کم سے کم 3000سے شروع ہوکر زیادہ سے زیادہ 15000 اور کچھ کیسوں میں 20000تک رکھی گئی ہے، حالانکہ جرمانہ کی یہ سلیب الیکٹرسٹی ایکٹ، 2003 میں کہیں پر نہیں رکھی گئی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ قانون میں یہ بھی نہیں لکھا ہے کہ ایک ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جائے اور بجلی سپلائی بھی منقطع کی جائے۔
قانونی فریم ورک
ہندوستان میں، بجلی کی چوری سے نمٹنے کے لیے قانونی ڈھانچہ الیکٹرسٹی ایکٹ، 2003 میں متعارف کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت، مختلف سیکشنز خاص طور پر بجلی کی چوری سے متعلق جرائم اور اس سے متعلقہ سزائوں کا ا حاطہ کیا گیا ہے۔ الیکٹرسٹی ایکٹ، 2003 کے دفعہ 135 کے تحت بجلی چوری جیسے میٹروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، غیر قانونی کنکشن کے ذریعے بجلی چوری اور ادائیگی سے بچنے کے دیگر طریقوں جیسی کارروائیوں سے متعلق جرم کے مرتکب پائے جانے والوں کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔سیکشن 138 کے تحت بجلی کی سپلائی میں مداخلت جیسے کہ ڈسٹری بیوشن لائنوں یا بجلی کی فراہمی کے عمل میں استعمال ہونے والے دیگر آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا احاطہ کیا گیاہے۔سیکشن 139 ، چوری شدہ بجلی حاصل کرنے کی سزا کا احاطہ کرتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی بجلی کو جان بوجھ کر استعمال کرنے والے افراد یا کاروبار بھی جرمانے کے تابع ہیں۔لیکن سپلائی لائن منقطع کرنا صارفین کے حقوق کیساتھ خلاف ورزی ہے کیونکہبجلی چوری یابقایا جات کی صورت میں، بجلی کی لائن منقطع کرنے سے پہلے 15 دن کا نوٹس درکار ہوتا ہے تاکہ صارف کو ایک موقعہ دیا جائے کہ وہ جرمانے کی رقم بھر سکے۔
ایمنسٹی سکیم
یہ سکیم 31 مارچ 2025 تک تمام گھریلو بجلی صارفین پر لاگو کی گئی اور بعد میں اسے اگست 2025 اور پھراگلے سال مارچ تک توسیع دی گئی ہے۔ صارفین کو اب 31 مارچ 2026 تک واجب الادا رقم مساوی اقساط میں ادا کرنی ہوگی اور اپنے موجودہ بلوں کو بھی بغیر کسی ناکامی کے باقاعدگی سے ادا کرنا ہوگا۔ رواں مالی سال کے آغاز میں محکمہ بجلی نے بڑے پیمانے پر بجلی کے بقایا جات میںایسے 100 نادہندگان کی فہرست جاری کی جن میں مختلف سرکاری محکمے، کارپوریشنز، اور کچھ بڑے نجی صارفین شامل ہیں، جن کے کل بقایا جات کا تخمینہ ایک ہزارکروڑ میں ہے۔لیکن ابھی تک پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈنے کمرشل اداروں اور گھریلو صارفین کے واجب الادا رقوم کی ادائیگی نہ کرنے پر سپلائی لائنیں منقطع نہیں کی ہیں۔