سرینگر//محکمہ بجلی نے مرکزی خریداری کے مقصد کو فوت کیا،جبکہ زائد از9کروڑ50لاکھ روپے کے سپلائی آرڈر بنک کی طرف سے لازمی ضمانت کے بغیر ہی تفویض کئے۔کمپٹولرلر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے محکمہ بجلی کے اخرجات کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے لائی ہے کہ گزشتہ5برسوں کے دوران محکمہ کو305 کرو ڑ18لاکھ روپے کی رقم خریداری کے لئے واگزار کی گئی،جس میں محکمہ نے278کروڑ3لاکھ روپے کا تصرف عمل میں لیا۔رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ صارف ڈویژنوں نے خریداری ڈویژن کو60کروڑ88لاکھ روپے اور کاروباری سماجی ذمہ داری کے تحت ایک کروڑ50لاکھ روپے کی رقم بھی فراہم کی ۔ دوران جانچ یہ بات سامنے آئی کہ محکمہ بجلی کے15صارف ڈویژنوں نے سال2011-12سے لیکر سال2015-16تک89کروڑ51لاکھ روپے کی خریداری از خود کی،جس میں جموں میں70کروڑ45لاکھ اور کشمیر میں19کروڑ6لاکھ روپے کی رقم شامل ہے،اور اس دوران محکمہ کی خریداری اور میٹریل منیجمنٹ شعبے سے کوئی بھی نا اعتراض سرٹیفکیٹ (این اوسی) حاصل نہیں کی گئی،اور اس طرح خریداری کے مرکزی نظام کے معیاری اور معقول قیمتوں میں حصولیابی کے مقصد کو فوت کیا۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2011 اور مارچ 2015میں محکمہ نے دو غیر ریاستی سپلائروں سے گزشتہ قیمتوں بشمول ٹیکس و ڈیوٹی سمیت ’’ڈاگ کنڈکٹر‘‘اور66کے وی سی ٹی کے آرڑ فراہم کئے گئے اور ایک کروڑ38لاکھ روپے کی رقم دی گئی،جبکہ دسمبر2011اوراپریل2015میں ایک بار پھر محکمہ نے اسی میٹریل کی حصولیابی کیلئے اسی قیمت پر مقامی سپلائروں کو آرڑر فراہم کئے،تاہم اس بات کو نظر انداز کیا گیاکہ حکومت نے مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے مقامی سپلائروں کو ٹیکس کی چھوٹ دی ہے،جس کی وجہ سے5لاکھ32ہزار روپے کا نقصان ہوگیا۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈیٹ کے دوران چیف انجینئر پی اینڈ ایم ایم کی طرف سے2014سے لیکر 2015تک جاری کئے گئے162 سپلائی آرڑروں کی جانچ کی گئی،جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ محکمہ نے 3کروڑ28لاکھ روپے کی کارکردگی ضمانت کو تسلیم کیا،جنہیںضلع صنعتی مراکز کے جنرل منیجروں کی طرف سے توثیقی دستخط کئے گئے تھے۔ان ضمانتوں کو اس لئے پیش کیا گیا کہ سپلائز سرکار کو با اعتبار بنک ضمانت پیش کریں گے،تاہم اس دوران سپلائروں نے کوئی بھی با اعتباد ضمانت پیش نہیں کی،جو معاہدوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ نے6کرروڑ33لاکھ روپے کے سادہ سیمنٹ کنکریٹ(پی سی سی) کھمبوں کی خریداری کیلئے 41سپلائی آرڑ جاری کئے ۔ خریداری کمیٹی نے فیصلہ لیا تھا کہ کام کے تخمینہ کا10فیصد زر ضمانت اور کارکردگی ضمانت سی ڈی آر،بنک گارینٹی(بنک ضمانت)، ایف ڈی آر کی شکل میں حاصل کیا جائے اور اس کو وارنٹی مدت کے بعد ہی واگزار کیا جائے،تاہم خریداری کمیٹی کی ہدایات کو نظر انداز کرکے محکمہ نے صرف5ہزار کی سیکیورٹی اور کام کے تخمینہ کا5فیصد زر ضمانت ضلع صنعتی مراکز کے جنرل منیجروں کی طرف سے توثیق شدہ دستخط سمیت حاصل کیا تاہم اس دران بنکوں سے کوئی بھی با اعتباد ضمانت حاصل نہیں کی گئی۔رپورٹ کے مطابق9کروڑ61لاکھ روپے کے سپلائی آرڑر طے شدہ ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے جاری کئے گئے اور اس دوران کوئی بھی معیاری تحفظ حاصل نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چیف انجینئر خریداری و میٹریل منیجمنٹ نے2010سے لیکر2014تک ائے سی ایس آر کنڈیکٹر اور سٹیل نلی نما بجلی کے کھمبے طے شدہ تعداد سے کم فراہم کرنے کی پاداش میں6کروڑ41لاکھ روپے کے سپلائی آرڑو منسوخ کئے،جبکہ سپلائروں سے جرمانہ کے طور پر32لاکھ 6ہزار روپے کی رقم وصولنے کے بجائے صرف35ہزار روپے کی رقم وصولی گئی، جس سے31لاکھ71ہزار روپے کا نقصان ہوا۔رپورٹ میں چیف انجینئر کی طرف سے اس معاملے میں دی گئی اس صفائی کو نا قابل قبو؛ل قرار دیا کہ صنعتی پالیسی کے تحت جرمانہ حاصل کیا گیا،تاہم صنعتی پالیسی میں ایسی کوئی شرط ہی موجود نہیں ہے۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2011اور2014میں’’ ائے سی ایس آر ڈاگ‘‘ اور33کے وی’’ آوٹ ڈور ویکیوم سرکٹ بریکر‘‘ کی خریداری کیلئے2 بولی دہندگان کو کامیاب قرار دیا گیا تاہم2012اور 2015میں جب انہیں کام کرنے کیلئے کہا گیا تو وہ مکر گئے۔رپورٹ کے مطابق محکمہ نے20لاکھ روپے کی زر ضمانت ضبط نہیں کی ۔