وادیٔ کشمیرمیں سردیوں کی شدت بڑھنے کے ساتھ محکمہ بجلی کی بے بیان ستم ریزیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور عام لوگ اس دہری تلوار کی زد میں ا?کر زخم زخم ہورہے ہیں۔ ایامِ سرما میں جو کٹوتی شیڈول پر ہو اکرتا تھا وہ قابل فہم ہوتا تھا اور صارفین بھی اپنی ضروریات کو اس سے ہم آہنگ کرتے تھے لیکن وہ سلسلہ تو اب ماضی کی بات بن گیا ہے اور اب نہ تو کوئی کٹوتی شیڈول ہی سالم وثابت ہے اور نہ ہی متعلقہ محکمہ کے اعلانات پر ہی کوئی اعتبار باقی رہاہے کیونکہ بجلی کی فراہمی میں تخفیف کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران محکمہ کی طرف سے جو بھی بیانات یا اطلاعات سامنے آئے ہیں وہ سب مذاق ثابت ہوگئے ۔ یہ ایک افسوسناک امرہے کہ وادی کے بیشتر علاقوں میں برقی رو کی فراہمی سکڑسمٹ کر 6سے 8گھنٹوں تک محدود ہوگئی ہے جو ایک ٹارچر سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس ستم ناک صورتحال کے خلاف شہرودیہات میں روزانہ احتجاج کیا جارہاہے مگر انتظامیہ ہے کہ اس پر معقول ردعمل ظاہر کرنے کے بجائےصرف پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں تخفیف کے دلائل پیش کرکے صارفین کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سردیوں کے ایام میں وادی کے دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح ہمیشہ کم ہوجاتی ہے اور حکومت اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بجلی کی درآمد کا بندوبست کرتی رہی ہے اور تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ برقی رو کی فراہمی یقینی بنا کر سردیوں کے ایام میں صارفین کی پریشانیوں کا خیال رکھا جاتا تھا مگر اب کی بار یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے کیوں رہے ، اس کی ایسی تاویلات پیش کی جارہی ہیں ، جو پاور سیکٹر میں ریاستی انتظامیہ کی ساٹھ سالہ کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔ ایک طرف محکمہ کا ہی دعویٰ ہے کہ بجلی کی ضرورت اور سپلائی میں تقریباً 600میگاواٹ کا فرق ہے جس کے لئے لگ بھگ سارا زورشمالی گرڈسے درآمد کرنے پر مرکوز رہتا ہے ، مگر محکمہ کے پاس اس درآمد کے لئے بھی بنیادی ڈھانچہ میسر نہیں ہے۔گزشتہ ہفتہ مرکزی حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ سرمائی ا یام کے دوران ریاست کو بجلی کی خصوصی سپلائی فراہم کی جائے گی ، مگر اسکا کیا ہوا ،کچھ پتہ نہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شمالی گرڈ اکثر وبیشتر ریاست کے نام بقاجات کی عدم ادائیگی کی آڑ میں اکثر سردیوں کے لئے درکار اضافی سپلائی کی فراہمی سے منکر رہتی ہے اور اگر تھوڑا بہت اضافہ ہوتابھی ہے تو مزید بجلی کی درآمدگی کے لئے محکمہ کے پاس ترسیلی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئے آنے والے ایام میں بجلی کی سپلائی میں مزید ابتری کا اندیشہ ہے ، جو یقینی طور پر اس قیامت خیز سرما میں صارفین کیلئے اضافی مصائب کا سبب ہوگا۔ایسے حالات میں عام لوگوں کاسڑکوں پر آکر احتجاج کرنا نہ صرف منطقی ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔لیکن اب محکمہ پی ڈی ڈی اس بحران کے لئے بجلی چوری اور ہکنگ کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرکے حقائق سے دامن چھڑانا چاہتی ہے۔ اب محکمہ بجلی پولیس کے ساتھ مل کر مختلف علاقوں میں شبانہ چھاپہ مار کاروائیوں کا پروگرام بنا کر ہکنگ کر نے والوں کو زیر تعزیر لانے کا عندیہ دیا ہے،جس کی سٹیٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری ایکٹ کے تحت گنجائش موجود ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے محکمہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ کیا یہ صارفین کا حق نہیں بتانا کہ انہیں اگریمنٹ کے مطابق24گھنٹوں کےلئے پورے وولٹیج کے ساتھ بجلی فراہم کی جاتی۔؟ لیکن ایسا نہیں ہوتا، حالانکہ جس وقت محکمہ نے ایک بڑی مہم کے تحت شہر او رقصبہ جات میں میٹروںکی تنصیب روبہ عمل میں لائی تو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ان علاقوں میںبلال خلل24گھنٹے بجلی فراہم ہوگی مگر یہ سب مذاق ثابت ہوا۔ ریاست کے جموں اور سرینگر کے دارالحکومتی شہروں میں بالترتیب گرمیوں اور سردیوں میں بجلی کی سپلائی کا بحران رہتا ہے، لیکن اس سے نمٹنے کےلئے صارفین کے ساتھ جو وطیرہ اختیار کیا جاتا ہے وہ یکساں نہیں۔ این ایچ پی سی کی جانب سے جو لوٹ کھسوٹ کا عالم برپا ہے، اُس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ گرم گرم دیوان خانوں میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیریں لکھنے والے حکام ،خواہ وہ سیاستدان ہوں یا انتظامی افسران ، کو مہنگائی کی مار جھیل رہے عام لوگوں کی مشکلات کا احساس چھوکر بھی نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کو وہ عذرخواہی کا روّیہ اختیار کرنے کی بجائے صارفین کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے ، کیونکہ جلد یا بدیر ہرحکومت کو اس طرح کے معاملات کی خاطر عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتاہے۔