محکمہ آب رسانی کی غفلت شعاری کی وجہ سے گزشتہ ایام کے دوران شمالی اور وسطی کشمیر کے کئی دیہات ہیضہ کی لپیٹ میں آگئے اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک سینکڑوں لوگوں کا علاج و معالجہ کیاجاچکا ہے ۔گوکہ محکمہ آب رسانی، جسے عرف عام میں پی ایچ ای اور اب جل شکتی محکمہ کہتے ہیں ،کے ذمہ داروں نے صورتحال کی سنگینی کو ڈائون پلے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پینے کے صاف پانی کی غلاظت سے انکار کیا تاہم متاثرہ علاقوں میں اس وقت جو سورتحال بنی ہوئی ہے ،وہ چیخ چیخ کر متعلقہ محکمہ کی غفلت شعاری بیان کررہی ہے۔بھلے ہی آب رسانی والے پانی کی آلودگی سے انکار کریں تاہم جن علاقوں میں یہ خطرناک بیماری پھوٹ پڑی تھی ،وہاں جو پانی سپلائی کیاجارہا تھا،اس میں انسانی اور حیوانی فضلہ پایا گیا ہے اورپورا پانی اس قدر آلودہ ہوچکا تھا کہ وہ مضر صحت بن چکا تھا ۔گوکہ ہاہا کار مچ جانے کے بعد متعلقہ محکمہ کے اہلکار و ذمہ دار نیند سے بیدا ر ہوئے اور پانی میں کلورین ملانا شروع کیا تاہم تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔محکمانہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں پانی براہ راست کھیت کھلیانوں کو جانے والی آبپاشی نہروں سے کسی ٹریٹمنٹ کے بغیر ہی صارفین کو سپلائی کیاجاتا تھا جس کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہوجاتی ہے ۔صورتحال کی سنگینی کودیکھتے ہوئے محکمہ صحت نے حرکت میں آکر اکئی مقامات پر پانی کے نمونے بھی حاصل کروائے جن کی طبعی و کیمیائی جانچ سے یہ ثابت ہوا کہ پانی انتہائی تشویشناک حدتک آلودہ ہوچکا تھا اور ماہرین نے پانی کو انسانوں کیلئے ناقابل استعمال قرار دیا۔ویسے بھی محکمہ آب رسانی کی غفلت شعاری اب زبان زد ہر خاص وعام ہے کیونکہ آئے روز وادی اور جموں کے مختلف علاقوں سے غلیظ پانی کے استعمال سے مختلف وبائی بیماریاں پھوٹ پڑنے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں تاہم محکمہ ہے کہ وہ غفلت کی لمبی نیند سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے اور متواتر ایک نہیں تو دوسرے بہانے ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی جارہی ہے ۔متعلقہ محکمہ اپنی کوتاہیوں کااعتراف کرکے اصلاح احوال کاعمل شروع کرناچاہئے کیونکہ اب یہ بات دریں چہ شک ہے کہ بیشتر علاقوں کو فراہم کیاجانے والاپانی ٹریٹمنٹ کے مراحل سے گزارے بغیر سپلائی کیا جارہا ہے اور پھر جب وبائی بیماریاں پھو ٹ پڑتی ہیں تو وقتی طور حالات پر قابو پانے اور عوامی غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پانی میں کلورین ملانے کے علاوہ پانی کے نمونے کے طبعی و کیمیانی جانچ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آئندہ ایسی کوئی کوتاہی محکمہ سے سر زد نہیں ہوگی تاہم چند روز بعد ہی جب حالات معمول پر آتے ہیں تو محکمہ پھر لمبی چھٹی پر جاتے ہوئے کسی نئے سانحہ کا انتظا ر کرتا ہے تاکہ نیند ٹوٹ سکے اور پھر سے کسی بہرانی صورتحال کا سامنا کرکے محکمہ کی چابکدستی کا اظہار کیا جائے تاہم اب یہ باتیں زیاہ ہضم ہونی والی نہیں ہے اور بہتری اسی میں ہے کہ غفلت کا سلسلہ ترک کرکے ذرا اپنے فرائض کے تئیں پرخلوص رہا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات ہی رونما نہ ہوں جن سے عوامی جانوں کوخطرہ لاحق ہونے کا احتمال ہو۔