رئیس یاسین
دنیا میں بسنے والے مختلف طبقات میں سب سے زیادہ مظلوم اور پسماندہ طبقہ مزدور طبقہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی محنت و مشقت سے دنیا کا نظام چلاتے ہیں، لیکن خود بدحالی اور غربت کے اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی صبحیں مزدوری کی تلاش میں نکلتی ہیں اور شامیں فاقوں کے سائے میں ڈھلتی ہیں۔ معاشی ناہمواری، سماجی بے حسی اور استحصالی نظام نے ان کی حالت کو مزید ابتر کر دیا ہے۔
مالی طور پر کمزور ہونا بظاہر ایک دنیاوی بدنصیبی لگتی ہے، کیونکہ ایک غریب آدمی کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور وہ ایک باعزت زندگی گزارنے سے محروم رہتا ہے۔ اس کی اولاد معیاری تعلیم سے محروم رہتی ہے، اس کا علاج معالجہ مشکل ہو جاتا ہے اور بنیادی سہولیات بھی اس کے لئے ایک خواب بن جاتی ہیں۔
لیکن اگر ہم آخرت کے نظریے سے دیکھیں تو ہمیں یہ حقیقت سمجھ آتی ہے کہ یہ دنیا ایک آزمائش ہے۔ یہاں پر محروم ہونا بھی اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ جو شخص اس حالت میں صبر اختیار کرتا ہے اور اللہ کی رضا میں راضی رہتا ہے، اس کے لیے آخرت میں بہترین اجر ہے۔
دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان کے پاس دولت، جائیداد، کاروبار اور زندگی کی ہر سہولت موجود ہے۔ بظاہر یہ لوگ کامیاب نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک بڑی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے اس دولت کے بارے میں پوچھے گا کہ کہاں سے کمائی اور کہاں خرچ کی۔ اگر انہوں نے اپنی دولت کا درست استعمال کیا، حاجت مندوں کی مدد کی، غریبوں کے حقوق کا خیال رکھا، تو یہ دولت ان کے لیے کامیابی کا ذریعہ بنے گی، لیکن اگر وہ غریبوں کے حقوق غضب کریں، ظلم و استحصال کریں، تو یہی دولت ان کے لیے آخرت میں وبال بن جائے گی۔
مزدور دن بھر محنت کرتا ہے، لیکن اس کا مالک اپنی مرضی کی اجرت دیتا ہے۔ اکثر اوقات ان کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ مزدوروں کے حقوق کی پامالی ایک عام روایت بن چکی ہے۔ہمارے معاشرے میں اکثر مزدور کا حق سلب کیا جاتا ہے۔ کہیں اسے کم اجرت دی جاتی ہیں تو کہیں اس بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔
مزدور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسل کو اچھی تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ اسکول کی فیس، کتابوں کے اخراجات اور دیگر تعلیمی ضروریات ایک مزدور کی استطاعت سے باہر ہوتی ہیں۔ اسی طرح علاج معالجہ بھی ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مزدور طبقہ کسی بھی طرح کی سکیورٹی سے محروم ہے۔ ان کے لیے نہ تو کوئی مستقل نوکری کی ضمانت ہے اور نہ ہی کسی طرح کی پنشن یا انشورنس کی سہولت۔ اس کے علاوہ سماج میں ان کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔
اسلام نے ہمیشہ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت پر زور دیا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے:’’مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔‘‘یہ اسلام کا حسن ہے کہ اس نے مزدوروں کو ان کا جائز حق دینے پر اتنا زور دیا ہے۔ اگر آج کا معاشرہ اس اصول پر عمل کرے تو کوئی مزدور بھوکا نہ رہے اور کوئی مزدور خودکشی کرنے پر مجبور نہ ہو۔یہ حکومت اور سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ مزدور طبقے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ:
� مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کا نظام مضبوط کرے� ان کی صحت اور تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کرے� ان کے لیے سوشل سیکیورٹی پروگرام متعارف کرائے
� مزدوروں کے لیے کم قیمت پر رہائشی اسکیمیں متعارف کروائی جائیں� ان کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خصوصی اسکالرشپ فراہم کی جائیں� مزدور طبقے کے لیے قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان کا استحصال نہ ہو۔
سماج کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ اگر ہر صاحب حیثیت شخص ایک مزدور کی کفالت کرے، اس کی ضروریات کا خیال رکھے، تو غربت کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروں کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ وہاں مزدوروں کے لیے باقاعدہ قوانین موجود ہیں، جن میں ان کی صحت، تنخواہ، تحفظ اور دیگر مراعات شامل ہیں۔ ان ممالک میں
مزدور یونینز فعال کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے مزدور خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔مزدور طبقہ ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ان کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ لیکن افسوس کہ یہی طبقہ سب سے زیادہ مظلوم اور بدحال ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا سماج ترقی کرے، انصاف پر مبنی ہو، تو ہمیں مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ ان کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہوگا اور انہیں وہ مقام دینا ہوگا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ دنیا چند دن کی ہے، لیکن آخرت ہمیشہ کے لیے ہے۔ اگر ہم یہاں کسی کے ساتھ انصاف کریں گے، تو وہاں اس کا اجر پائیں گے۔ ہمیں مزدوروں کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ وہ بھی ایک بہتر اور باعزت زندگی گزار سکیں۔
نبی کریمؐ نے بھی مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:’’مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔‘‘ (ابن ماجہ)۔یہ حدیث اسلام کی مزدور دوستی کا بہترین ثبوت ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو محض نظریاتی تعلیمات پر نہیں، بلکہ عملی اقدامات پر بھی زور دیتا ہے۔ اسلامی حکومتوں میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے درج ذیل اصول اپنائے گئے:مزدوروں کی اجرت کو یقینی بنانا اور استحصال سے روکنا۔کام کے اوقات مقرر کرنا تاکہ وہ ذہنی و جسمانی سکون حاصل کر سکیں۔
روزگار کے مواقع فراہم کرنا تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔مزدوروں کو مساوات اور انصاف فراہم کرنا، تاکہ کسی بھی طرح کے تعصب یا استحصال سے ان کی حفاظت ہو۔
خلفائے راشدین کے دور میں مزدوروں کے حقوق کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المال سے ضرورت مند مزدوروں اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے امداد کا نظام متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ حضرت علیؓ کے دور میں مزدوروں کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جاتا اور ان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جاتے۔
آج بھی اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو مزدوروں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مزدوروں کے حقوق کی پاسداری نہ صرف دنیاوی ترقی بلکہ آخرت کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں عدل و انصاف کو فروغ دیں اور مزدوروں کو ان کا جائز حق دیں تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہےاور ہم آخرت میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
[email protected]