سرینگر// وادی میں بچہ مزدوری کی روک تھام کیلئے کوئی جامع پالیسی نہیں ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ بچہ مزدوری مخالف قوانین میں کافی خامیاں ہیں۔محنت کشوں کے عالمی دن پر،جہاں مزدور اپنے حقوق کیلئے بر سر احتجاج ہوتے ہیں،وہی بچہ مزدوری کی وباء ختم کرنے کیلئے سماجی،سیاسی اور سرکاری سطح پر بھی نظریں چرائی جاتی ہیں۔ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر فیاض احمد نکہ کی طرف سے آزادانہ تحقیقات’’جموں کشمیر میں بچہ مزدوری،سماجی،معاشی اور اخلاقی پہلو‘‘ نے جموں کشمیر میں بچہ مزدورں کی تعداد کو2لاکھ50ہزار قرار دیا ہے،جبکہ2001میں ریاستی حکومت کی طرف سے مردم شماری میں بھی اس کی تعداد ایک لاکھ75ہزار قرار دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں بچہ مزدوری کے انسداد کیلئے جو قوانین رائج ہیں،وہ خامیوں سے پر ہیں،کیونکہ محکمہ لیبر صرف ان کیسوں کو ہی بچہ مزدوری کے زمرے میں لاتا ہے،جو18برس کی عمر سے کم کسی کے ہاں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے’’ غیر منظم شعبوں،جن میں قالین، دستکاری، پشمینہ،شالبافی اور روایتی خاندانی کاروبار کے تحت آزادانہ طور پر کام کر نے والے بچوںکو بچہ مزدوری کے زمرے میں نہیں لایا جاتا۔محکمہ میں عملے کی بھی کمی ہے،اور تمام اضلاع میں انسپکٹروں کی تعداد صرف12ہے۔ایڈوکیٹ الطاف احمد کہنا ہے کہ ایک انسپکٹر کیلئے پورے ضلع پر مکمل نظر رکھنا اور معائنہ کرنا آسان نہیں ہے،جبکہ انہیں دیگر انتظامی کام بھی تفویض کئے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا موجودہ وباء سے نظریں چرانے کے بجائے حکومت کو بچہ مزدوری کی روک تھام کیلئے ایک مربوط پالیسی لیکر سامنے آنا چاہیے،تاکہ اسکو جڑ سے ہی ختم کیا جائے۔ان کا کہنا تھا ’’ اپنے کنبوں کی کفالت کرنے اور ان مالکان،جو کہ انہیں کام پر رکھتے ہیں،کے خلاف کارروائی عمل میں لانے سے مسائل کا ازالہ زمینی سطح پر ممکن نہیں ہے،اور نہ ہی اس سے کوئی حل برآمد ہوسکتا ہے‘‘۔ایڈوکیٹ الطاف کا کہنا ہے کہ سرکار کو ان بچوں کے مالیاتی فوائد کیلئے پالیسی مرتب کرنی چاہیے،جہاں انہیں تعلیم کے علاوہ تربیت بھی فراہم ہو۔1996میں مرکزی حکومت کی سکیم’’ قومی چائلڈ لیبر پروجیکٹ‘‘ کو اس مقصد کے ساتھ متعارف کیا گیا تھا،تاکہ بچہ مزدوری پر قابو پایا جاسکے۔ اس اسکیم کے تحت محکمہ کو بچے کو ماہانہ150روپے کا وظیفہ فراہم کرنا تھا،جبکہ بنیادی تعلیم کے علاوہ ہنر کی تربیت سے بھی لیس کرنا تھا۔اس حوالے سے سرینگر کے پارمپورہ،فور شور روڑ،کرسو،راجباغ اور حبک سمیت دیگر علاقوں میں بچہ مزدوروں کیلئے11 خصوصی اسکول قائم کئے گئے تھے، جن بچوں کو پہلے ہی مختلف کام کرنے کی جگہوں پر بازیاب کیا گیا تھا ،کو ان میں داخل کیا گیا ،تاہم بچوں کی طرف سے کام کرنے میں دلچسپی نے اس اسکیم کو محدود کیا۔ محکمہ کے ایک افسر کا کہنا ہے’’ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نہیں،بلکہ اپنے کنبوں کی کفالت کیلئے کام کرتے ہیں،اور انہیں اس قدر رقم کی ضرورت پڑتی ہے،جس سے وہ اپنے کنبوں کی معاونت کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ جموں کشمیر میں بچہ مزدوروںکی تعداد سے متعلق کوئی بھی سروئے نہیں کیا گیا ہے،اور نہ ہی کوئی معقول اعدادو شمار موجود ہیں،نہ ہی اس تعداد کا علم ہے کہ محکمہ نے عدالتوں میں کتنے چالان پیش کئے ہیں۔اسسٹنٹ لیبر کمشنر سرینگر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ محکمہ کی طرف سے ماضی قریب میں چائلڈ لیبروں پر کوئی بھی سروئے نہیں کی گئی۔ اسسٹنٹ لیبر کمشنر رابعہ اقبال نے کہا’’ ہم بچہ مزدوری کو ختم کرنے کیلئے تیار ہیں،تاہم قانون نافذ کرنے والی مختلف ایجنسیوں بشمول پولیس،سیول انتظامیہ کے درمیان تال میل کے فقدان سے ہدف پورا نہیں ہو رہا ہے‘‘۔سرینگر میں عالمی یوم محنت کشاں کے موقعہ پر ایک تقریب کے حاشیہ پر کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ بچہ مزدوری کی وباء، مالیاتی صورتحال کے نتیجے میں سامنے آتی ہے،اور بچوں کو اپنی تعلیم کو بیچ میں ہی خیر آباد کرنا پڑتا ہے،اور انہیں اپنے معصوم کندھوں پر اپنے کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔رابعہ اقبال کا کہنا ہے یہ صورتحال بچوں کے مستقبل کیلئے زہر ہے، اس کو ختم کرنا مشکل کام نہیں،تاہم آپسی تال میل اس کو کچھ مشکل ضرور بتانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف انتظامیہ بلکہ سماج اور معاشرے کا بھی کردار بنتا ہے کہ وہ اس وباء کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔ رابعہ اقبال نے تاہم واضح کیا کہ محکمہ کو ان بچہ گداگروں کے ساتھ کوئی بھی سروکار نہیں جو راستوں پر گداگری میں مصروف رہتے ہیں،یا اپنا خود کا کاربار کرتے ہیں۔ اسسٹنٹ لیبر کمشنر سرینگر نے بتایا’’ہم ان مالکان کیلئے صرف قانونی کارروائی کی منظوری دے سکتے ہیں،جو بچوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انکے ساتھ استحصال کرتے ہیں،تاہم انہیں از خود سزا نہیں دے سکتے۔‘‘