آپ نے یقینا عظیم باکسر مرحوم محمد علی کی باکسنگ دیکھی ہوگی، محمد علی انتہائی محنتی اور نہایت ذہین و زِیرک کھلاڑی تھا، باکسنگ کی دنیا میں کئی تکنیک اس نے روشناس کرائیں، بعض اوقات وہ اپنی خود اعتمادی اور قوّتِ ارادی کے باعث پہلے ہی اعلان کردیتا کہ کس راونڈ میں اس کے مخالف باکسر کا حشر دنیا کے سامنے نشر ہو نے والا ہے۔ محمد علی رِنگ میں چاروں جانب اْچھلتا رہتا، سامنے والے کو اپنے اوپر حملے کی دعوت بھی دیتا اور اسے بھگا بھگا کر بْری طرح تھکا دیتا، مخالف باکسر جب اس کو گھونسے مارتا تو یہ حضرت اپنے ہاتھ منہ پر رکھے خاموشی سے مار کھاتے رہتے اور اپنا چہرہ بچائے رکھتے تاکہ مخالف کو پوائنٹس نہ مل سکیں، پھر اگلے کسی راونڈ میں جب اس کا مخالف زِچ ہوجاتا اور تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا تو محمد علی اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا اور تاپڑ توڑ حملے سے اسے نڈھال کردیتا اور پھر وہاں موجود حاضرین اور ٹیلی ویژن کے ناظرین یہ منظر دیکھتے کہ ریفری نے محمد علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا ہوا ہے اور مخالف باکسر نیچے پڑا درد سے کراہ رہا ہے۔
برازیل سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کے عظیم کھلاڑی پیلے سے کون واقف نہیں ہوگا، دنیا بھر میں اس کھلاڑی کو جو عزت و مقام ملا ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہے، ارجنٹینا کے نامور فٹ بالر ارمینڈو میرا ڈونا کے کھیل کی بھی ایک دنیا معترف ہے، آپ اگر ان دونوں کے کھیل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اَن تھک محنت اور مسلسل مشق کے ساتھ ساتھ ان دونوں کھلاڑیوں کے پاس اس کھیل کی کمال درجہ کی تَکنیک اور ذہانت بھی تھی، آئیے ہاکی کے کھیل کا جائزہ لیتے ہیں، اس کھیل میں جس قدر جسمانی مشقت درکار ہے ،وہ سب پر عَیاں ہے۔ظاہر ہے کہ ٹیم میں چنیدہ کھلاڑی ہی آتے ہیں جن کا اسٹیمنا اور جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے لیکن ہندو پاک کے چند کھلاڑیوں کو جو شہرت نصیب ہوئی ہے اس سے بچّہ بچّہ واقف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کھلاڑیوںکے پاس کھیل کی بے شمار تکنیک اور اعلیٰ درجہ کی ذہانت موجود تھی ،جو اُن کو اپنے معاصر سے ممتاز کرتی تھی۔
قارئین کرام! کامیابی اور پھر متواتر اور مسلسل کامیابی کوئی آسان کام نہیں ہے، اپنے میدان میں اس قدر آگے بڑھ جانا کہ مسابقت کرنے والے بہت پیچھے رہ جائیں ،بچّوں کا کھیل نہیں ہے۔ دنیا کسی کی جیت اور کامیابی کو ایسے سَراہے کہ اسے عظیم قرار دے کر سر آنکھوں پر بٹھالے تو اسے کوئی ’’میجک شو‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے ۔اس لیے کہ اس عالیٰ مقام تک پہنچنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، محنت اور مسلسل محنت اور ذہانت اور بے انتہا ذہانت کے بغیر اس منزل کو پالینا محال ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کامیابی کے اس درجے تک پہنچنے کے لیے مختلف النوع صلاحیتیں، استعدادا ور مہارتیں درکار ہیں ،لیکن سمجھنا چاہیے کہ ایک خاص درجہ کی محنت اور ذہانت ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، یقینا ذہانت کے لیے بھی محنت درکار ہے اور محنت میں بھی ایک حد تک ذہانت کا کردار ہے لیکن کامیابی میں ان دونوں کا کردار الگ الگ ہوتا ہے۔ شاید یہ نکتہ عجیب معلوم ہو لیکن حقیقت ہے کہ صرف محنت سے اعلیٰ درجے کی کامیابی نہیں مل سکتی جب تک کہ محنت کو ذہانت سے بڑھاوا نہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بغیر محنت کے اور صرف ذہانت کے بل بوتے پر کامیابیوں کی بہار آجائے گی۔ محمّد علی کی بے مثال کامیابیوں میں یہی نکتہ کارفرما تھا، ایک خاص درجے کی جسمانی، اعصابی، نفسیاتی مشق، ہاتھوں پیروں اور پٹھوں کی مضبوطی اور پھر اس کے بعد تکنیک، مہارت، کھیل کی سائنس کو سمجھنا اور مخالف باکسر کے مزاج اور کمزوریوں کو جاننا وغیرہ۔ عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے طالبِ علم بہت محنت کرتے ہیں لیکن اس درجہ کی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ امتحان کے حوالے سے جن ٹیکنکس کا معلوم ہونا ضروری ہے وہ ان سے ناواقف ہوتے ہیں، پرچے کو حل کرنے کے لیے جس درجہ کی ذہانت درکار ہے وہ اس سے نابلد ہوتے ہیں، والدین اسی میں خوش رہتے ہیں کہ ان کے بچے بہت پڑھ رہے ہیں اور بڑی محنت کررہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ امتحانات میں نمبر حاصل کرنے کی سائنس بالکل دوسری ہے اور جب تک محنت کے ساتھ اس خاص درجہ ٔ ذہانت کو نہیں ملایا جائے گا مطلوبہ ثمرات نہیں نکلیں گے۔ مسابقت کے ہر کھیل میں یہی راز مضمر ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انسانی عمل جب سرزد ہوتا ہے تو اس میں دل، دماغ سمیت سارے ہی اعضاء کا کردار ہوتا ہے، یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جہاں جذبات کا بھی اہم رول ہے، کبھی ہاری ہوئی بازی بھی جیت لی جاتی ہے اور بعض اوقات جیتا ہوا کھیل بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اس کی وجہ محنت اور ذہانت کے وظائف کے ساتھ دل کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جنون اورجذبے کا کوئی مثل نہیں، لگن اور جوش کو کون شکست دے سکتا ہے، چنانچہ بنیادی محنت، اعلیٰ ذہانت کے ساتھ جوش و جنون کی قوت کا موثر استعمال ہو تو کامیابی کا حصول آسان ہے۔ محنت اور ذہانت کے عمل میں بھی دل کا کردار ہوتا ہے لیکن جذبات کا اپنا دائرہ عمل ہے اسی لیے ہم اکثر یہ جملہ سنتے ہیں کہ دماغ تو تسلیم کرتا ہے لیکن دل نہیں مانتا۔
قارئینِ محترم ! حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہر کام میں اعلیٰ درجہ معیار کے لیے ان تینوں وظائف کو بروئے کار لانا چاہیے خواہ وہ عمدہ ولذیذ بریانی پکانا ہو یا دیگر امور خانہ داری ہو، ملازمت میں ترقی کی منزلیں طے کرنا ہو، تجارت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہو یا کھیل کے میدان میں نام روشن کرنا ہو، ہر جگہ یہی شاہ کلید ہے۔الغرض جو محنت نہیں کرتا تو وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور جو ایک خاص درجہ کی محنت تو کرلے مگر ذہانت کا استعمال نہ کرے تو وہ بھی اونچا مقام نہیں پاسکتا اور جس کے پاس جوش و ولولہ ہی نہ ہو تو وہ کبھی بھی میدان نہیں مارسکتا۔ لہٰذا مطلوبہ درجے کی محنت، ذہانت اور جوش کا مکمل پیکج ہی ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا اکسیر نسخہ ہے۔