ودربھ کی ادبی تاریخ کو عصرحاضر کے جن ادیبوں پر ناز ہے ان میں ڈاکٹر محمد اسداللّٰہ کابھی شمارہوتاہے۔ وہ ایک انتہائی سنجیدہ اور مخلص تخلیق کار ہیں۔ ان کی سوچ میں وسعت وگیرائی ہے۔ وہ درس وتدریس کے پیشے سے ہمیشہ وابستہ رہے اور اپنے اس فرض کو دیانت داری سے انجام دیا۔ ان کی ادبی کاوش اور تخلیقی عمل بھی اس خوبی کا حامل ہے۔ وہ ایک کامیاب مترجم، بہترین طنزومزاح نگار اور منفردانشائیہ نگارکی حیثیت سے حلقۂ ادب میں اپنا امیج بناچکے ہیں۔ اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں۔ان کی پہلی کتاب جمال ہم نشیں ۱۹۸۵ء میںشائع ہوئی۔ یہ مراٹھی کے چند ادیبوں کے مزاحیہ فن پاروں، کہانیوں اور ڈراموں پرمشتمل ہے۔ سری کرشن کولہٹکر اور پی کے اترے کے مزاحیوں، چ و جوشی اور رمیش منتری کی کہانیوں، مدھوکرآشٹی کراور وسنت سبنس کے ڈراموں کوانھوں نے اردو کے پیکرمیں اس حسن و خوبی سے ڈھالا ہے کہ ترجمہ نگاری پران کی گرفت اور مہارت کوتسلیم کرنا پڑتاہے۔ یہی خوبی ان کی دوسری کتاب : دانت ہمارے ہونٹ تمہارے میںبھی ملتی ہے جو ۱۹۹۶ء میں چھپ کرمنظرعام پرآئی۔ اس میں انھوں نے مراٹھی کے معروف ادیب اور مزاحیہ نگار رمیش منتری کی نومراٹھی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیا ہے۔ یوں مراٹھی ادب اور خصوصاً مراٹھی نثرکو اردو میں منتقل کرکے اردو دنیا کومراٹھی ادیبوں کی فکرسے روشناس کرانے کااہم فریضہ انجام دیاہے۔ یہ دونوں کتابیں مراٹھی زبان وادب سے ان کی گہری دلچسپی اور واقفیت کاثبوت فراہم کرتی ہیں اور ان کی تخلیقیت کے عمل کوبھی نمایاں کرتی ہیں۔
محمداسداللّٰہ کے تخلیقی عمل کادوسرا میدان طنزومزاح اور نشائیہ نگاری ہے۔ ان دونوں اصناف میں انھوں نے اپنی علمی لیاقت اور جولانی طبع کے خوب جوہردکھائے ہیں۔ ان میں ان کے فکر و خیال کی بلندی، بصارت و بصیرت کی توانائی، من کی موج ومستی، والہانہ کیفیت اور موضوع پران کی مکمل گرفت ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے طنزیہ ومزاحیہ مضامین ۱۹۸۰ء سے اب تک ہندوپاک کے کئی مقتدر ادبی جرائد ورسائل میں چھپ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پرپرزے (۱۹۹۲ء)، ہوائیاں(۱۹۹۸ء) اور ڈبل رول (۲۰۱۵ء) کے عنوان سے شائع ہونے والی ان کی تصانیف میں بھی محفوظ ہیں۔ ان مضامین میں اگر ایک طرف زبردست عمل جراحی اور نشترزنی ہے تو دوسری طرف گہری ادبیت بھی ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے اپنے پروازتخیل سے اس قدر شوخی، تازگی اور توانائی عطا کرتے ہیں کہ قاری کارنج وغم، مسرت وشادمانی کے پیکر میں ڈھل جاتاہے۔ اس کی اداسی و افسرگی، خوشی ونشاط سے بدل جاتی ہے۔ موضوع کے لحاظ سے ان کے یہاں جلالی وجمالی دونوں کیفیتیں جلوہ گرہیں۔ لیکن یہ دونوں ہی ہنسنے پرمجبور کرتی ہیں۔ ان کے عنوانات بالکل واضح اور عمومی ہیں۔ مثلاً لکھنے کی فرمائش پر، گائوں کے راستے، نوٹ، گدھے، مہمانوں کا سیلاب، شادی کے بعد، بری نظروالے، کتے اور بوئے وفا، جوتے، کان اور پاکٹ وغیرہ۔ لیکن ان معمولی سے موضوعات میں انھوں نے اپنی قوتِ تخیل سے وہ رنگ آمیزی کی ہے کہ حسین و دلکش ہوگئے ہیں۔ ایسی روح پھونکی ہے کہ ان میں جان و توانئی آگئی ہے۔ مثلاً کان سے کون محروم ہے۔ ہرایک کے جسم میںکان ہوتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور اہمیت پر کوئی غور نہیں کرتا۔ اسداللّٰہ نے غورکیاتووہ اس نتیجے پرپہنچے ہیں:
’’کان انسانی جسم کامظلوم ترین عضوہے۔ تمام اعمال و افعال کے ڈرامے میں یہ گونگا کردار ہے۔ عالم تقریر میں معنی ومدعا عنقا ہو یا موجود، دامِ شنیدن بچھائے رکھنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ یہ ہاتھی، گدھے، بیل یااسی قسم کے کسی جانور کے جسم پر واقع ہو تو سننے کے بعد مکھیاں بھگانے کے بھی کام آتاہے۔ انسانوں کے نزدیک اس کا مصرف سننے کے علاوہ بعض اوقات نہیں سننا بھی ہے۔‘‘
اس اقتباس میں ادب کے علاوہ طنزبھی ہے اور مزاح بھی۔ وہ مکاری بھی ظاہر ہے جوانسان اپنے کان کے حوالے سے اکثرکرتارہتاہے۔ جوتاایک معمولی سی چیز ہے لیکن جب محمداسداللّٰہ نے اس پرغوروفکر کیاتویہ صداقتیں ان کے ہاتھ آئیں:
’’وہ عجیب و غریب شے جس کے بغیر شرفا کا گھر سے باہر نکلنا، چور اچکوں کاٹھیک ڈھنگ سے چلنا اور سڑک چھاپ عاشقوں کاسنبھلنا ممکن نہ ہو، جوتا کہلاتی ہے۔ جوتا لوگوں کو راہ راست پرلانے اور چلانے، دونوں کاموں کے لیے استعمال کیاجاتاہے… انسان جو ضرورت کابندہ ہے کتنے ہی بندوں کی جوتیاں سیدھی کرتاہے اور جب اس بندگی میں بھلا نہیں ہوتا تو بالآخر ہاتھ میں جوتا اٹھا لیتا ہے۔‘‘
اس میں اسداللّٰہ نے انسانی نفسیات اور مزاج کی جوعکاسی کی ہے وہ ان کے گہرے مشاہدے اور پختہ شعور کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور چیزوں سے زبردست فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھی سے طنزومزاح کااستخراج کرتے ہیں۔ ان کاکوئی بھی طنزیہ و مزاحیہ پڑھ لیجئے وہ انھی خوبیوں سے آراستہ ملے گا۔ انھیں ایک نقطے کووسیع دائرے میں تبدیل کرنے میں بڑاکمال حاصل ہے۔ وہ طنزومزاح کا تیر چلانے کے لیے اپنے ہدف کوتلاش کرتے نہیں پھرتے بلکہ ان کی نظروں کے سامنے مادہ پرست سماج کا جو منظرنامہ ہے وہ انھیں خودغوروفکر کی دعوت دیتاہے اور ان کے جذبات کو مشتعل کرتا ہے۔ پھر چاہے نوٹ ہویاپاکٹ، طوطے ہویا گدھے، چپلوں کی چوری ہو یا بفے پارٹی کاہنگامہ، شاعر بننے کی تمنا ہویاکاتب کی کرشمہ سازیاں، کال بیل کی پریشانیاں ہوں یا نقلِ مکانی کی دشواریاں، مہمانوں کاسیلاب ہویاگائوں کے راستے، شادی کے بعد کی زندگی کا مسئلہ ہو یا کتے کی وفاداری سب کچھ ان کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ پھر خواہ کوئی موضوع ہووہ اس کے نقص، خامی اور کمزوری کو سلیقے سے اجاگرکرتے ہیں اور اس کو ایسی شکل میں پیش کرتے ہیں کہ لبوں پر بے ساختہ تبسم رقص کرنے لگتاہے۔ چند مثالیں دیکھئے:
’’ہم نے دیکھا ہے کہ بعض فقیردامن پھیلا کر بھیک مانگتے ہیں۔ کچھ اپنی ٹوپی کو الٹا کرکے ہاتھوں میں کٹورے کی طرح تھام کراس میںبھیک جمع کرتے ہیں۔ بعض لوگ ٹوپی کوسرپہ سجاکر بھی یہ مقصد حاصل کرلیتے ہیں… عام خیال یہ ہے کہ عبادت کرتے ہوئے ٹوپی پہننا اور تجارت کرتے ہوئے ٹوپی پہنانا ضروری ہے۔ حالانکہ اگر آپ سچائی اور خلوص دل کے مالک ہیں تواس کے بغیر بھی یہ دونوں کام انجام دیے جاسکتے ہیں۔‘‘ (ٹوپی کے متعلق)
’’ہمیں مہمانوں کی آمد سے مسرت کیوں نہیں ہوتی۔ اس کاسیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے زمانے میں روحانی مسرتوں کا کیا کام؟ کیا مادی ترقی کے اس عہدِ زریں میں بھی روح کا وجود باقی ہے۔ جی ہاں روحانیت اب بھی زندہ ہے اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ اپنے گھر کی دہلیز پرمہمانوں کا امڈتا ہواسیلاب دیکھ کرجوچیز ہمارے اندر فنا ہونے لگتی ہے وہ ہماری روح ہی ہے۔‘‘ (مہمانوں کا سیلاب)
’’شادی کے بعد چند عبوری ماہ وسال گذرجائیں توشوہر کوبالفرض وہ ناقد ہے تو جلد ہی پتہ چل جاتاہے کہ تنقید کے سرکش گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ سے نکل کرکسی دست نازک میں چلی گئی ہے۔ اگر وہ شاعر ہے تو اسے محسوس ہوتاہے کہ زندگی کا قافیہ تنگ ہوگیاہے۔ ادیب ہے تواسے لگتاہے اب حدِّادب سمٹ گئی ہے۔ طنز نگار پریہ انکشاف ہوتاہے کہ وہ خود اپنی ذات پر ایک بہت بڑاطنز ہے۔ آدمی بذاتِ خود ایک چلتے پھرتے لطیفے میں ڈھل گیا ہوتو لوگوں کوہنسانے کے لیے کاغذ قلم کوزحمت دینے کی کیاضرورت؟ قرضداروںسے سہما ہوا، بیوی سے ڈرا ہوا، نونہالوں سے لدا ہوا شوہر ایک ان کہا اور ان سنا لطیفہ ہی تو ہے۔‘‘(شادی کے بعد)
محمداسداللّٰہ اپنے طنزیہ ومزاحیہ مضامین میں اپنی قوتِ تخیل سے اسی طرح کی شگفتگی، شوخی اور ادبیت کارس گھولتے ہیں اور بات میں بات پیدا کرتے ہیں۔ مولانا ناطق گلائوٹھوی نے بالکل سچ کہا ہے:
ناطق نہ ہو جو بات تو بولے نہ آدمی
بولے تو اس میں بات بھی پیدا کرے کوئی
محمداسداللّٰہ کے تخلیقی عمل کاجوہران کے انشائیوں میں اس قدرحسن وخوبی سے ظاہر ہواہے کہ یہ صنف ان کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں انشائیہ نگاری کی تحریک کوپروان چڑھانے والے مشہور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغانے انھیں ہندوستان کے تین ممتاز انشائیہ نگاروں میں شمار کیا ہے۔ وہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے جبکہ بھارت میں تاحال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اس میدان میں قدم رکھاہے۔ ان میں دو تو منجھے ہوئے ادیب ہیں یعنی احمدجمال پاشا اور رام لعل نابھوی۔ لیکن تیسراایک نوجوان انشائیہ نگار محمد اسد اللّٰہ ہے۔‘‘(بوڑھے کے رول میں، مصنف محمد اسداللّٰہ، مطبوعہ ۱۹۹۱ء)
’بوڑھے کے رول میں‘ محمداسداللّٰہ کے ان انشائیوں کاپہلا مجموعہ ہے جو ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۰ء کے درمیان ماہنامہ اوراق (لاہور)، ماہنامہ توازن (مالیگائوں)، ماہنامہ آہنگ (گیا)، ماہنامہ اردو زبان(سرگودھا)، ماہنامہ تخلیق (لاہور)، ماہنامہ شاعر (بمبئی) اور ماہنامہ آجکل (نئی دہلی) میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان انشائیوں کے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا پیش لفظ میں اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محمداسداللّٰہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں بھی تازہ کاری اور اُپج کامظاہرہ کیا ہے۔ اس کے یہاں ندرتِ خیال ہے جوبنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پرہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے۔ اس نے زندگی کودوسروں کی نہیں خوداپنی نظرسے دیکھا ہے اور اسی لیے اس کے یہاں ردِّ عمل شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے… محمد اسداللّٰہ اشیاء کوحیرت آمیز مسرت کے ساتھ دیکھنے اور ان کی ماہیئت کو سطح پر لانے کا ڈھنگ جانتاہے۔ اسی لیے وہ انشائیہ نگاری کے میدان میںکامیاب ہے۔‘‘اسی کتاب میں احمد جمال پاشا ’حرفِ آخر‘ عنوان کے تحت اپنے تاثرات اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
’’محمداسداللّٰہ نے بہت جلدفنی ہفت خواں طے کرکے اردو انشائیہ میں ایک بلند اور منفرد مقام حاصل کرلیاہے۔ ان کے یہاں انشائیہ من کی موج ہے جس میں فکر، بصیرت اور مسرت کے ذہنی دریچے واہوتے ہیں جن کی بنیاد خیال انگیزی اور سوچ کے بالکل ہی انوکھے پہلو ہوا کرتے ہیں۔ وہ موضوع کاداخلی سفراسی انداز سے طے کرتے ہیں کہ ایک بالکل ان دیکھی دنیا، بالکل نئے مظاہرقاری اچک اچک کر دیکھنے لگتاہے۔ وہ موضوع کی نگاہ سے حقیقت کے چمن کی سیرکرانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔‘‘گویا انشائیہ نگاری میں محمداسداللّٰہ کی انفرادیت اور اہمیت کو ۱۹۹۰ء کے پہلے اس وقت تسلیم کیاجاچکاتھاجب وہ جوانی کے دورسے گزررہے تھے۔ اس کے بعد بھی اس صنف میںان کاتخلیقی عمل جاری رہاجوان کی مطبوعہ تصنیف ڈل رول (۲۰۱۵ء) میں شامل ہے۔
انشائیہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کا تعلق باطنی جذبہ و احساس اور ذہنی رو سے ہے۔ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انشائیہ نگار کواس پلِ صراط سے گزرنا پڑتا ہے جس کے ایک طرف ہجو ہے اور دوسری طرف طنز و مزاح۔ اس میں ذراسی غفلت اور لاپرواہی انشائیہ نگار کو یا تو ہجو نگاری کی طرف لے جاتی ہے یا پھر طنز و مزاح نگاری کے راستے پرڈال دیتی ہے۔ چوں کہ محمداسداللّٰہ ان تینوں کے فرق سے بخوبی واقف ہیں اور اس حقیقت کے رمزشناس ہیں اس لیے وہ انشائیہ لکھتے وقت اس قدر احتیاط سے قلم چلاتے ہیں کہ خود کو پلِ صراط کے دونوں طرف کی کھائی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ وہ انشائیے اپنی ذہنی رو کو فکرونظر کے تابع رکھ کر تخلیق کرتے ہیں اور موضوع کے پوشیدہ پہلو اور رازِ نہاں کوا س خوبی سے اجاگر کرتے ہیں کہ پڑھنے والا حیرت کے طلسم کدے میں اسیر ہوکررہ جاتاہے۔ انھیں موضوع کے سمندر کی گہرائی میں اترنے، وہاں سے گوہرِ نایاب کوڈھونڈنکالنے ، عدم کو وجود میں لانے اور لوگوں کواس سے واقف کرانے میں زبردست کمال حاصل ہے۔ ان اوصاف سے ان کے بیشتر انشائیے مزین ہیں۔ مثلاً ان کاایک انشائیہ ہے انڈا جو عنوان کے لحاظ سے بہت ہی معمولی نظرآتاہے مگراس کے تحت انھوں نے اس حقیقت کوواضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ انڈے کابیضوی وجود اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ہر جاندار حیات وموت کے دائروں کاقیدی ہے۔ اس کے حوالے سے وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ کائنات کی تکمیل اسی کی مرہونِ منت ہے:
’’عورت اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب وہ ایک آدھ بچہ کوجنم دینے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ بھلاخاندانی منصوبہ بندی والوں کویہ کون سمجھائے کہ انسانی یاحیوانی سطح پر تخلیق کا ہر نشان کائنات کی تکمیل کی طرف اٹھتا ہوا قدم ہے۔ ہر انڈا اپنے حلیے بشرے سے تکمیلیت کی ایک عجیب سی آسودگی سے سرشار نظرآتاہے تواس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اس کے خاندان کا چراغ اس کی ذات میں روشن ہے بلکہ آئندہ نسلوں کی پوری فوج اس کے اندرچھپی ہوئی ہے۔ وہ وقت کی طویل زنجیر میں ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک اہم کڑی ہے۔‘‘
یہ بقا کی تصویر ہے۔ اب فنا کی عکاسی دیکھئے:
’’پرندے رحم مادر سے انڈے میں منتقل ہوئے۔ پھر دنیا میں آکر انڈے کے چھلکے سے نجات پائی۔ ہم لوگ سیدھے رحم مادر سے دنیا میں تشریف لائے۔ اس صورت میں کیا ہماری دنیاوی زندگی اس کائنات کے انڈے میں قیام کاعرصہ ہے۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آسمان کایہ طویل وعریض چھلکا ٹوٹے گا اور کروڑ ہا انسانی چوزے میدانِ حشر میں کلبلاتے پھریں گے۔ ابھی تو وقت کا پرنداس کائنات کے انڈے کواپنے گرم پروں میں چھپائے بیٹھا ہے۔‘‘
محمداسداللّٰہ نے نیچر کی گود میں بیٹھ کر اپنے ذہن کی کھڑکی کھولی توانھیں ماضی حال سے پرسکون اور مادیت، روحانیت پرغالب نظرآئی۔ شہرکی دم گھٹادینے والی فضا سے جنگل و بیاباں کاماحول راحت بخش دکھائی دیا۔ انھوں نے اس انشائیے میں اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ آدم وحوا سے لے کر نیوٹن کے نظریۂ کششِ ثقل اور موجودہ سائنسی اکتشافات تک جو ارتقائی عمل ہوا ہے اس کانقطۂ عروج انسان کی ہلاکت وبربادی ہے۔ یہ وہ ترقیِ معکوس ہے جس نے انسان کے رشتے کو اخلاقیات سے کاٹ کررکھ دیا ہے۔ اس انشائیے کی ابتدا میں جو رمزیت ہے اسی میں پُرسکون ماضی کی تلاش مضمر ہے جوعنقا ہوچکی ہے:
’’میں دور تک بکھری ہوئی ہریالی پربیٹھاسوچ رہاہوں ایسی من موہنی باتیں جو سامنے ایستادہ ادھ کٹے پیڑ پربیٹھی فاختائوں کی مانند ہیں۔ درخت کاکٹا ہوا حصۂ مرحوم ماضی ہے۔ بقیہ ماندہ لمحۂ موجودہ۔ اور یہ سلسلہ مستقبل کی تلاش میں زمین کے اندر اتر گیا ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے۔ بچپن میں آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے کوئی اجنبی لڑکا یکایک ہمارے کھیل میں شامل ہوگیاتھا۔ پھر یوں ہواوہ کہیں جاچھپا تومیں نے آنکھ موند کر پوچھا… میں آئوں؟ وہ بولا آئو! چنانچہ وہ دن ہے اور آج کا دن میں اسے تلاش کرتاپھرتاہوں۔ وہ مجھے کہیں نظرنہیں آتا۔ شاید وہ میرا مستقبل ہے اور عین ممکن ہے وہ ابھی زمین کی پرت اٹھاکرمجھے آواز دے اور کہے: … گڈو! تم مجھے کہاں ڈھونڈتے پھر رہے ہو۔ میں تویہاں ہوں۔‘‘(نیچرکی گودمیں)
ْمحمداسداللّٰہ نے اپنے انشائیوں میںجس تخلیقی اور فکری شعور کاوالہانہ اور بے باکانہ اظہار کیاہے اس کودیکھ کر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ اشیا کے ا سرار کے کشاف اور رمزشناس ہیں جس کے ادراک کے لیے ذہنِ رسا اور بیدار دل کی ضرورت ہے۔ ان میں تازگی، توانائی اور شگفتگی ہے۔ رمزیت، ایمائیت اور اوج موج ہے۔ خارجی شعور اور باطنی محشر مضمر ہے۔ انھوں نے لفظوں کے تخلیقی برتائو سے انشائیوں میں وہ رنگ آمیزی کی ہے کہ قاری اس کے دامِ حسن میں اسیر میں ہوجاتاہے۔
رابطہ :حیدری روڈ، مومن پورہ، ناگپور؍۴۴۰۰۱۸(مہاراشٹر)