جموں سرینگر قومی شاہراہ پر ہر روز پسیاں گرآنے کی وجہ سے شاہراہ کا آئے روز مکمل بند رہنا اور روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک بند رہنا معمول بن چکا ہے۔دیکھا جائے تو یہ شاہراہ اب پسیاں اوربرفانی تودے گرآنے کی وجہ سے بند رہنے اور اور صبر آزما ٹریفک جاموں کیلئے مشہور ہوچکی ہے ۔گوکہ کسی حد تک سرینگر جموں قومی شاہراہ ہمہ موسمی رہتی ہے تاہم اب سال کے بارہ مہینہ اس شاہراہ کا آئے روز بند ہوجانا معمول بن چکا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ جموں سرینگر قومی شاہراہ سمیت سبھی بین صوبائی شاہرائوں پر آئے روز کے حادثات اور پسیاں و برفانی تودے گرآنے کی وجہ سے لوگ ان شاہرائوںپر سفر کرنے سے بھی کترارہے ہیں۔
گرتے پتھروں،پسیوں اور برفانی تودوں کی زد میں انسانی جانوںکا اتلاف جہاں ان شاہرائوں پر کوئی نئی بات نہیں رہی ہے وہیں دشوار گزار پہاڑی راستہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات بھی ان شاہرائوںپر روز کا معمول بن چکے ہیں ۔حالیہ ایام میں سرینگر لیہہ شاہراہ پر ایک چھوٹی مسافر گاڑی کے برفانی تودے کی زد میں آنے کی خبر ابھی لوگوںکے حافظہ میں تازہ ہی ہے جس میں سواریاں معجزاتی طور بچ نکلیں تاہم جموں سرینگر شاہراہ پر المناک حادثات میں انسانی جانوں کے اتلاف کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک لوگ ان شاہرائوں پر خوفناک سفر کی کہانیاں دہراتے رہیں گے ؟ کب تک لوگ ہمہ موسمی اور قابل انحصار شاہرائوں کیلئے ترستے رہیں گے ؟ آج کے اس ترقی یافتہ میں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس سے بھی دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں محفوظ شاہراہیں موجود ہیں جو نہ صرف ہمہ موسمی ہیں بلکہ ان پر سفر بھی حادثات سے محفوظ رہتا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو ایسی مشینیں اور طریقے مہیا رکھے ہیں جن سے پہاڑی علاقوں میں شاہرائوں کی تعمیر انتہائی آسان ہی نہیں بن چکی ہے بلکہ اب ایسی شاہرائوں کو زمین کے کٹائو کے نتیجہ میں پسیوں اور برف باری کے نتیجہ میں برفانی تودوں سے بچانے کا ایک فول پروف نظام بھی موجود ہے اور ایسی پہاڑی شاہرائوں کے خطرناک حصوں میں ٹنلوںکی تعمیر کرکے سفر کو آسان اور محفوظ بنایا جاتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمارے یہاں ایسی شاہرائو ں کی حالت بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ایسی ٹیکنالوجی میسر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی شاہرائوں کی حالت کیوں نہیں بدل رہی ہے ،یہ ایک ایسا سوال ہے جو پور ے حکومتی نظام کی اہلیت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔شاہراہیں ترقی کی گزر گاہیں ہوتی ہیں۔بہتر سڑک روابط کا مطلب بلکہ معیشت ہے اور سڑک رابطوں کی خستہ حالی کا مطلب خستہ حالی معیشت ہے ۔حکومت بھی اس منطق سے بخوبی واقف ہے لیکن نہ جانے کیوں اس کے باجود بے ڈھنگی چال بدلنے کا نام نہیں لیاجارہا ہے۔اب برسہا برس سے سرینگر جموں قومی شاہراہ کی توسیع کا کام جاری ہے لیکن اس توسیعی منصوبہ کا یہ عالم ہے کہ جموں سے ادہم پور کا حصہ کب کا مکمل ہوچکا تاہم ادہم پور سے بانہال کا حصہ ابھی تقریباً ویسے کا ویسا ہی پڑا ہوا ہے اور جس رفتار سے تعمیری کام چل رہا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے اس کی تکمیل میں ابھی برسہا برس لگ سکتے ہیں۔اسی طرح یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ارباب بست و کشاد جموںصوبہ کے چناب اور پیر پنچال خطوں کو کشمیر سے ہمہ موسمی اور ہمہ وقت سڑک روابط فراہم کرنے کیلئے کشتواڑ سنتھن،ڈوڈہ دیسہ کپرن ،مغل شاہراہ ،لورن سائوجیاں آریزال ،ریاسی کولگام شاہرائوں پر ٹنلوں کی تعمیر سے منکر ہے ۔علاو ہ ازیں کیوں کیرن ،مژھل اور کرناہ کے علاوہ گریز کو کشمیر سے سال بھر جوڑے رکھنے کیلئے ان سڑکوں پر ٹنلیں تعمیر کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ ۔سرینگر لیہہ شاہراہ کو ہمہ موسمی بنانے کیلئے جہاں سونہ مرگ کے نزدیک زیڈ موڈ ٹنل پر تعمیر ی کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے وہیں زوجیلا ٹنل کا تعمیر ی کام بھی جاری ہے اور ایسے میںا مید پیدا ہوگئی ہے کہ کچھ سال بعد یہ شاہراہ ہمہ موسمی بن جائے گی تاہم خود جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے سال بھر جوڑے رکھنے کیلئے کیوں ٹنلوں کی تعمیر میں حکومت دلچسپی نہیں لے رہی ہے ،چہ معنی دارد ہے ۔ کب تک ہم کہتے ر ہیں کہ سرینگر جموں شاہراہ پر زیر تعمیر ٹنلوںکی تعمیر فوری طور مکمل کرنے کے علاوہ اس شاہراہ پر مزید ٹنلیں تعمیر کی جائیں تاکہ اس شاہراہ پر محفوظ اور آرام دہ سفر یقینی بن سکے ۔اسی طرح کب تک لوگ صدائیں دیتے رہیں کہ جموںوکشمیر کے پہاڑی خطوں کو ہمہ موسمی سڑک رابطوں سے جوڑنے کیلئے ٹنلیں بنائی جائیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب صدا بہ صحرا ثابت ہورہا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو اب بس بھی کریں! ٹنلیں بنائیں،سڑک روابط بڑھائیں اور جس ترقی و خوشحالی کی آپ باتیں کررہے ہیں ،اس کو حقیقت کا روپ دیں۔