شفاعت احمد وانی
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ بن شہاب الدین ہمدانی (1314ء تا1384 ) سلسلہ کبرویہ کے عظیم صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عرفانی شاعر اور محقق بھی تھے۔
آپ 12 رجب المرجب 714 ہجری کو پیر کے دن ہمدان میں پیدا ہوئے اور 786 ہجری میں مانسہرہ کے علاقہ پکھلی میں انتقال فرما گئے اور ختلان میں مدفون ہوئے۔ آپؒ نے ایک بادشاہ کے فرزند ہونے کے باوجود تبلیغ اسلام کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ کشمیر سمیت خطے کے کئی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلایا۔ سید علی ہمدانی ؒ کی تشریف آوری کے بعد کشمیر کی ثقافت ہی تبدیل ہو گئی۔ آپؒ نے عقائد،فضائل اہلبیتؑاور رموز تصوف کے علاوہ دیگر موضوعات پر چھوٹے چھوٹے رسائل سے لے کر انتہائی ضخیم کتابیں بھی تالیف کیں۔آپؒ کا تعلق ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تھااور آپ نے ابتدائی اسلامی اور قرآن پاک کی تعلیم اپنے ماموں حضرت علاء الدولہ سمنانی ؒ سے حاصل کی اورایک سال میں قرآن پاک کا مکمل ترجمہ اور تفسیر کا دورہ مکمل کیا۔اس کے بعد انہوں نے آپؒ کو ابوالبرکات شیخ محمد مزدقانی ؒ کے حوالے کیا، جہاں سے آپ نے روحانی فیض حاصل کیا۔
آپؒ سلسلہ طریقت کبرویہ سے منسلک تھے اور ابوالمیامین نجم الدین محمد بن محمد مزدقانی ؒ سے روحانی تبلیغ کی اجازت حاصل کی۔ سلسلۂ طریقت کے پیریت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ ؒ نے پوری دنیا میں سیاحت شروع کی۔حضرت سید علی ہمدانی ؒنے تین دفعہ پیدل بیت اللہ شریف کا حج ادا کیا اور بیس یا اکیس سال مسلسل سفر میں رہے ۔ اس عرصے میں آپؒ بہت سے اولیاء اللہؒ سے ملاقاتیں کیں ۔آپ کم و بیش 700 مریدوں اور پیروکاروں کے ہمراہ کشمیر تشریف لائے ۔آپ ؒ نےکشمیر کی ثقافت کی کئی بنیادوں کو تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف اسلامی ثقافت کا درجہ دیا بلکہ خطے میں کشمیر کی اقتصادی حالت بھی انتہائی مضبوط کردی ۔ وقت کے بادشاہ امیر تیمور کے مظالم سے بچنے کیلئے آپ ؒنے کشمیر کا رخ کیا۔ قبل ازیں اپنے والد گرامی کی بادشاہت کے دوران دو مریدوں میر سید حسن سمنانی اور میر تاج الدین سمنانی ؒ کو کشمیر روانہ کرچکے تھے تاکہ وہاں تبلیغ اسلام کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔کشمیر میں جنابحضرت علی ہمدانی ؒ نےمنظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ ان کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ آپؒ نے ہمیشہ کیلئے کشمیر میں پڑائونہیں ڈالا بلکہ مختلف اور مناسب مواقع پر اس علاقے کا دورہ فرماتے رہے ۔ آپؒ نے اپنے مریدین کو مساجد میں ائمہ جمعہ و جماعت کی ذمہ داریاں دے کر وہاں سکونت پذیر کردیا اور خود تمام معاملات کی نگرانی فرماتے رہے ۔ سید علی ہمدانی ؒ کی تعمیر کردہ بہت سی خانقاہیں موجود ہیں جہاں مکتب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے لاکھوں افراد نماز پنجگانہ ، نماز جمعہ، عیدین و دیگر اسلامی تہواروں پر جمع ہوتے ہیں۔خاص کر ایام عزاداری میں انہیں خانقاہوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مجالس ہوتی ہیں۔
حضرت سید علی ہمدانی ؒ نے 774ہجری پہلی بار کشمیر کا دورہ کیا اور چھ ماہ تک رہے، اُس وقت کشمیر کے حکمران سلطان شہاب الدین تھے۔ دوسری مرتبہ 781 ھ میں کشمیر تشریف لائے جبکہ قطب الدین والی کشمیر تھے۔ اس دفعہ کم و بیش ایک سال تک کشمیر میں قیام فرمایا،کشمیر کے قریہ قریہ کا دورہ فرمایا اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ 783 ھ میں آپؒ نے لداخ سمیت ترکستان کا بھی سفر کیا۔ تیسری بار 785 ھ میں آپ نے کشمیر کا رُخ فرمایا۔چنانچہ علالت کے باعث آپ ؒ کو واپس ہمدان جانا پڑا۔ واپسی پر جب پکھلی پہنچے تو بیماری شدت اختیار کر گئی اور یہ مرض المرگ ثابت ہوئی ۔ پکھلی میں پانچ دن کی شدید علالت کے بعد آپؒ 6 ذی الحج 786 ھ کو اس دارفانی سے کوچ فرما گئے ۔ آپ ؒ کے جسد انور کو تاجکستان کے دارالخلافہ دوشنبہ کے نواحی شہر ختلان لایا گیا اور یہیں تدفین عمل میں آئی ۔ آپؒ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔