میلاد النبی ؐ
محمد اشرف بن سلام
باعث تخلیق آدم،معلم انسانیت ،امام الا نبیاء، فخرموجود ،حضرت احمد مجتبیٰ محمدرسول اللہؐ کو خالق کائنات نے نوع انسانی کے لئے کامل اسوۃ حسنہ بنایا ہے محسن انسانیتؐ کی ذاتِ اقدس ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام اوصاف جاگزیں کئے ہیں جو انسانیت کے لئے مکمل لائحہ عمل بن سکتے ہیں۔کیونکہ نبی آخرالزماںؐ کی دنیا میں تشریف آوری بلا تفریق تمام عالم انسانیت کیلئے رحمت ہیں۔ امام الانبیاءؐ نے تاریکی میں ڈوبی ہوئے انسانیت کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلائی اور انسانیت کو اس کی حقیقی معراج اور بلندی کے نکتہ کمال پر پہنچایا۔یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان دونوں عالموں پر فرمایا ہے۔خاتم النبیینؐ ربیع الاول (موسم بہار)میں دنیا میں بھیجا۔عربی زبان میں’’ ربیع‘‘ بہار کے موسم کو کہتے ہیں۔ فطرت کا یہ کتنا حسین امتزاج تھا کہ جہان آب وگل میں آپؐ کی تشریف آوری ہوئی تو خزاں اپنی بساط لپیٹ کر رخصت ہوچکی تھی۔مشاطہ بہار عروس چمن کو آراستہ وپیراستہ کرنے میں محوتھی اور بے رنگ خاکہ دہر میں قدرت کی رنگینیاں بھری جاری تھیں۔ پیغمبر آخر الزمانؐکی آمد پر ربّ ذوالجلال کی قدرت کاملہ نے ساری زمین کو سرسبز کردیا اورہرسمیت رحمتوں اور برکتوں کی بھر مار کردی اور قحط زدہ علاقوں میں رزق کی اتنی کشاد گی فرمادی کہ وہ سال خوشی اور فرحت والا سال کہلایاگیا۔
میلاد النبیؐ منانا حضرت نبی کریمؐ کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار تاریخ اور حدیث میں موجود ہے۔ یہ ایسا عمل مبارک ہے ، جس سے ابو لہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، حالانکہ اْس کی مذمت میں پوری سورت نازل ہوئی ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میلاد النبیؐ کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اْس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی ؐکی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔حضور سرورِ کائناتؐ خود بھی اپنے یومِ ولادت کی خوشی مناتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر باگاہِ ربّ العزت میں سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپؐ کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرمؐ ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق اور وسیلہ سے ہر وجود کو سعادت ملی ہےاور میلاد النبیؐ کا عمل مسلمانوں کو نبی اکرمؐ پر درود و سلام جیسے اہم فرائض کی طرف رغبت کردیتا ہے،اورصلوٰۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔
رہبر انسانیت امام الا نبیاءؐ کے ولادت سے قبل یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشوا پیغمبر آخرالزمانؐ کے متعلق زیادہ باتیں کرنے لگے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی اپنی مذہبی کتابوںپڑھا تھا۔انہیں دن بہ دن وہ آثار اپنے نگاہوں کے سامنے دکھائی دے رہے تھے۔یہ چھٹی صدی عیسوی کے آخری تہائی تھا،جب میں دنیا کی قلب میں ہر قسم کی بیماریاں پھیلی ہوئی تھیں اور انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا تھا ، انسان موجود تھا لیکن شعور انسانیت نہ تھااور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا تھا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا ذکرہے۔فرمان الٰہی ہے :جو لوگ ایسے رسول اْ مّی نبی (محمدؐ) کی پیروی کرتے ہیں جن کا ذکر وہ تورات و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں۔ وہ(رسولؐ)اُنہیں نیک کاموں کا حکم کرتا اور برے کاموں سے روکتا ہے۔ وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اورناپاک چیزوں کو حرام بتاتے ہیں اوران پرسے (پہلی شریعتوں کی سخت پابندیوں کا) بوجھ اُتارتے ہیں اور ان بندشوں کوکھول دیتے ہیں جن میں لوگ جکڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ اس (نبیؐ) پر ایمان لاتے، ان کی حمایت اورمددکرتے اور اس نور(قرآن) کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، ایسے لوگ ہی پوری طرح کامیاب ہونے والے ہیں۔ (الا عراف)
حضرت نبی کریمؐ کا ذکر جمیل تمام کتب سماویہ میں مذکور ہے۔ زبور میں امام الا نبیاءؐ کی بشارت جب اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام سے فرمایا:۔’’اے دا ئود عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گاجس کانام احمد اور محمدہوگا۔ وہ اپنی قوم میں صادق اور سردار ہو گا۔ میں اس سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ ہی وہ مجھ سے کبھی ناراض ہوگا۔ اے دائود! میں نے محمد اور ان کی امت کو تمام امتوں سیزیادہ افضل بنایاہے۔ اس لئے کہ ان کی امت وہ کام (فرائض،حج اورجہاد وغیرہ) کرے گی جو ان سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام نے کئے۔میں نے ان کی اُمت کو چھ ایسے انعامات دیئے ہیں جو انعامات ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دئے۔’’اگر وہ بھولے سے کوئی غلطی کربیٹھیں گے تو میں اْن کی پکڑ نہیں کروں گا۔وہ غلطی ہو جانے کے فوراً بعد توبہ کرلیں گے تو میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا۔جو چیز وہ صدقہ کریں گے، میں آخرت میں اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دوں گا۔میرے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں،میں ان کو اپنے خزانوں میں سے کثیر تعداد میں اور بہتر خزانہ دوں گا۔وہ پریشانی کے وقت صبر کریں گےاورساتھ ساتھ انا للہ و انااللہ راجعون پڑھیں گے تومیں انہیں جنت نعیم دوں گا۔اوروہ مجھ سے جو بھی دعا مانگیں گے،میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ہاں! اگر کسی مصلحت کے طور پرقبول نہ کروں تواسکااجرآخرت میں ضرور دوں گا۔‘‘
حضرت رسول اکرمؐ عالم انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت اور احسانِ عظیم ہیں۔اسلئے اْمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمت عظیم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے۔ چوں کہ رسول رحمتؐ کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ اورفضل عظیم ہے اسلئے اس نعمت ِ عظم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو، اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی ؐثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبیؐ کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے۔(ماخوذ) شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ رسول رحمتؐکی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، امام الانبیاءؐ کی ولادت پر خوشی منانےاور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو رسول اللہؐ کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
رسول اللہ ؐ سے پہلے جو نبی آئے اور اپنے اپنے زمانے میں بشارتیں دی ہیں کہ پیغمبر آخرالزمانؐ کی تشریف آوری کے قصے ہر نبی و رسول کی زبان سے بیان کروائے گئے اور ہر امت کو سنائے گئے، لہٰذا ایسا عظیم رسول کہ جن کی آمد کا چرچا ہزاروں برس قبل بلکہ ابتدائے خلق سے ہوتا رہا اور آپؐ کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے راہ نجات ہے ۔رسول اللہؐ کی ولادت حسین ترین لمحہ ہے جس کی خوشی پوری کائنات میں تب بھی تھی اور آج بھی ہےاورظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم نبی آخرالزماںؐکاامت اس کی میلاد پر ہر ممکن جائز طریقہ سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ عاجزی و انکساری ، محبت وخلوص کے ساتھ کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھی تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائےاورآمد رسولؐ کی خوشی مناناکوئی غیر شرعی فعل نہیں بلکہ منشائے خدا و رسولؐ کے عین مطابق اور تقاضائے اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سرور دوعالمؐ کے صدقہ میں ہم سب کی مغفرت فرما ،بیماروں کو شفادے اور ہماری ہر نیک آرزو کو پورا فرمادے۔آمین
[email protected]