مدحتِ اہلِبیتؓ
این و آں کی نہیں عادتِ اہلِبیت
ہوتی ہے سب پہ ہی رحمتِ اہلِبیت
مجھ کو بھی دے گا رب جنتِ اہلِبیت
میرے دل میں بھی ہے اُلفتِ اہلِبیت
ساری دنیا کے آلام ہیں اک طرف
اور تھی اک طرف کُلفتِ اہلِبیت
میرے اعمال نامے میں دوزخ تھا بس
وہ تو کام آگئی نسبتِ اہلِبیت
ہم سے بھی راضی ہوجاتا پرور دگار
کاش کر پاتے ہم خدمتِ اہلِبیت
تیرا بھی نام رہ جاتا باقی یذید
تو بھی کر لیتا جو منتِ اہلِبیت
ذہنِِ انساں کو ممکن نہیں علم یہ
رب ہی بس جانے ہے رفعتِ اہلِبیت
دل میں جنت کی حسرت ہےجاگی ذکیؔ
آؤ آؤ کریں مدحتِ اہلِبیت
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
موبائل نمبر؛7007368108
محرم
تاریخ بتاتی ہے یہی شام و سحر کی
تکلیف ، محرم میں بڑھے سوزِ جگر کی
طاغوت کے آگے نہ جھکی گردنِ حق وہ
یہ شانِ عُلا دیکھی علی مولا کے گھر کی
محرومِ اَنا تھا سبھی طاغوت کا لشکر
زینب یہی کہتی تھی رِدا چھن گئی سر کی
جس روز اُتارے گئے اس دھرتی پہ آدم
اس دن سے قیامت ہی تھی قسمت میں بشر کی
کربل میں حکومت سے نہتے ہی لڑے وہ
ایسی تھی شہادت مرے زہرا کے پسر کی
خط بھیج کے بلوایا انہیں ہٹ گئے پیچھے
غیرت بھی کہاں مر گئی اُف اہلِ نظر کی
ہر ماہ میں افضل ہے نیا ماہِ محرم
انجم ؔیہ کہانی ہے بہتّرکے سفر کی
فریدہ انجم
پٹنہ سٹی
منقبتِ سیدنا حسین ؑ
میں حسینی ہوں مرا رہبر حسینؑ
دل عزا خانہ ہے اور دلبر حسینؑ
مصطفےؐ کا لاڈلا میرِ حرم
عظمت و اعجاز کا پیکر حسینؑ
بادشاہِ جنتاں خاطر نشین
مفلس و محتاج کا یاور حسینؑ
حیدرِ کرارؑ کا نورِ نظر
برگزیدہ، باصفا ، داور حسینؑ
دینِ حق کے واسطے قرباں ہوا
فاطمہ کا لال بختاور حسینؑ
ربِ کعبہ کی محبت مِل گئی
مل گیا جس کو شہِ خاور حسینؑ
اللہ اللہ خوب سے بھی خوب تر
مرکزِ فیضان، قد آور حسینؑ
باکمال ولازوال و بے مثال
مومنوں کی چاہ کا محور حسینؑ
تو ہے اے آفاقؔ پروانہ حزیں
تیرے سوزو ساز کا مصدر حسینؑ
آفاقؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006087267
نوحہ
بتا دے ظالم رسولؐ کو کیوں رُولا دیا یوں ہے کربلا میں
وہ خونِ ناحقِ حُسینؑ کا جو بہا دیا یوں ہے کربلا میں
کیا ہے بے گھر یہاں پہ لاکر رسولِ رحمتؐ کی بیٹیوں کو
نبیؐ کی دُختر کے دِل کو مجروح جو کردیا یوں ہے کربلامیں
تھے تین دن کے حُسینؑ پیاسے فرات پانی بہا رہا تھا
گلے پہ اُس کے چلا جو خنجر تو سارا مقتل لرز رہا تھا
رَضا خُدا کی ہوئی ہے حاصل حسینؑ تجھ کو ہے کربلا میں
تڑپ رہے تھے زمین پہ سرورؐ ،فلک بھی آنسوں بہا رہا تھا
رہا نہ قاسم، رہا نہ اکبر وہ بے کسی میں کِسے پُکار ے
کٹا کے بازو وہ باوفا بھی نہر سے واپس نہ لوٹ آئے
گئے تھے مقتل میں لے کے اصغرؑ ذرا سا پانی اُسے پلانے
بُجھا دی کیسے وہ پیاس اُس کی وہاں پہ لیکن ہے حُرملانے
اُم المصائب جنابِ زینب حُسینؑ کا غم منا رہی ہے
کیا ہے مقتل میں خاک برسر وہ عزمِ حیدر دکھا رہی ہے
دیارِ کرب وبلا میں اُس کا رہا نہ کوئی رفیق اپنا
ابھی تو کوفے کا سامنا ہے وہ چہرہ اپنا چُھپا رہی ہے
بنا کے بیمار کو بھی قیدی پہنا دیا ہے لوہے کا زیور
خدایا زہراؑ کی بیٹیوں میں رِدا نہیں ہے کسی کے سرپر
شہیدِ کرب و بلا کی بہنا بابا کو اپنے بُلا رہی ہے
وہ شام تک یوں چلے ہیں پیدل نہ بھول پائے کوئی یہ منظر
حکیم مظفرؔ حسین
باغبانپورہ، لعل بازار
موبائل نمبر؛9622171322