ڈاکٹرعبید الرحمٰن
محرم جو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے، اسے چار مبارک مہینوں میں سمجھاجاتاہے۔ قرآن مجید کہتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے(محرم، ذو القعدہ، ذو الجہ اور رجب) حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو ‘‘۔ (التوبہ: ۳۶)۔تاریخ شاہد ہے کہ ماہ محرم کئی واقعات کی وجہ سے عظیم اہمیت کا حامل ہے۔ آدمؑ کی تخلیق ۱۰؍محرم کو ہوئی او ر وہ اسی روز جنت میں داخل ہوئے۔ اسی روز وہ جنت سے نکالے گئے اور اسی روز ان کی توبہ بھی قبول ہوئی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ پہلی مرتبہ زمین پر بارش ماہ محرم ہی میںنازل ہوئی۔ پیغمبر نوح ؑ کی کشتی خوفناک طوفان کے بعد اسی مہینہ میں جودی پہاڑ پر اتری۔ دسویں محرم کو ہی نمرود کی آگ پیغمبر ابراہیمؑ کے لئے پھولوں میں بدل گئی۔ پیغمبر یونسؑ کو اسی مہینے میں مچھلی کے پیٹ سے نکالاگیا۔ پیغمبر سلیمانؑ کو اس مہینے کی دس تاریخ کو ہی ایک شاندار تخت عطاکیاگیا۔پیغمبر موسیٰ ؑکو فرعون کے ظلم وبربریت سے اسی مہینے میں نجات ملی۔نواسۂ رسولؐحضرت حسین ؓ کو بھی دس محرم کو ہی شہید کیاگیا۔یہ قابل لحاظ بات ہے کہ جب پیغمبر محمدؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپؐ نے دیکھا کہ یہود دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی دن تھا جب پیغمبر موسیؑ اور ان کے پیروکاروں نے معجزانہ طور پربحراحمر پار کیا اور فرعون اس کے پانی میں غرق ہوگیا۔ یہودیوں کی یہ بات سن کر نبی پاکؐ نے فرمایا:’’ہم موسیؑ کے تم سے کہیں زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ اورآپؐ نے مسلمانوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا:’’رمضان کے بعد بہترین روزہ اللہ کے محبوب مہینے محرم میں روزہ رکھناہے۔‘‘احادیث کی ایک بڑی تعدادمیں محرم کے فضائل وصفات کا بیان پرشکوہ انداز میں ہے۔ اب یہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کس قدر یوم عاشوراء یعنی دس محرم کا اہتمام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوںکے مابین کوئی اختلاف یا امتیاز نہیں ہے کیونکہ وہ سبھی اس عظیم اور محترم دن کا بڑی عقیدت سے اہتمام کرتے ہیں۔ دسویں محرم کو شہادتِ حسین ؓ واقعتًا تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اپنی کتاب’’المرتضٰی‘‘ میں مولانا سید ابو الحسن ندویؒ رقمطراز ہیں:’’ابو مخنف بیان کرتے ہیں حضرت حسینؓ کے شہید ہونے کے بعد انہوں نے ان کے جسم پر نیزوں کے ضرب کے ۳۳اور دوسرے اسلحوں کے ۳۴نشانات دیکھے۔ ان شہداء کے تعداد جنہوں نے حضرت حسین ؓ کے ساتھ اپنی جان دی ۷۲ تھی۔ محمدبن حنیفہ بیان کرتے ہیں کہ شہداء میں ۱۷ ؍نبی کریمؐ کی دخترحضرت فاطمہؓ کی اولاد تھے۔جس روز یہ المیہ وقوع پذیر ہوا، وہ جمعہ ۱۰؍محرم ۶۱ھ مطابق ۱۰؍اکتوبر ۶۸۰ء کادن تھا۔ حضرت حسینؓ کی عمر مبارک اس وقت ۵۴سال ساڑھے چھہ مہینے تھی۔‘‘ درحقیقت حضرت حسینؓ صراط مستقیم پر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ ان کی شہادت بُرائی اور فتنہ پرور قوتوں کے خلاف جنگ میں ان کی شجاعت، بہادری ، دیانت داری، امانت داری، صداقت، عدل اور راستبازی کی غماز ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یزید جس کی فوج نے حضرت حسینؓ کی جماعت پر حملہ کیاتھا نے خوداپنے گناہ کا اعتراف کیاتھا اور حضرت حسینؓ کی موت پر ماتم کیاتھا۔ سنی اور شیعہ دونوں حضرت حسینؓ کا احترام کرتے ہیں۔ حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہما کوجنت میں نوجوانوں کا سردار کہاجاتاہے۔
امام ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت حسنؓ کو شہادت سے نوازا اوران لوگوں کو جنہوں نے ان کی جان لی یا غلط عمل میں ان کا تعاون کیا یا اس کو منظوری دی، ذلیل کیا۔ حضرت حسینؓ اسلام کے اولین شہداء کاایک نمونہ تھے کیونکہ وہ اور اُن کے بھائی جنت میں نوجوانوںکے سردار ہیں۔ ان کی پرورش اسلام کے ابتدائی دور میںہوئی اور اسی لئے وہ ہجرت اور اسلام کی راہ میں ملنے والی صعوبتوں اور اس ایذاء رسانی سے جس سے ان کے پیشرو دوچارہوئے ،محروم رہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں شہادت سے سرفراز فرمایا اورانہیں عزت واحترام سے سربلند کیا اور بلند مقام عطافرمایا۔ ان کی شہادت سخت المیہ تھی‘‘۔ (فتاوی ابن تیمیہ، جلد ۹، صفحہ ۴۸۳)
خلاصہ یہ کہ سنی اور شیعہ دونوں حضرت حسینؓ کی بڑی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں، کربلا کاالمیہ دونوں کے نزدیک انتہائی دردناک اور ناقابل فراموش تصور کیاجاتاہے ۔ حضرت حسینؓ کے لئے بہترین خراج تحسین یہ ہے کہ محرم کی دسویںتاریخ کو روزہ رکھا جائے اور اچھے اعما ل اور نیک اور پاکیزہ افعال میں اپنے کو شامل کیاجائے۔