محمد حسن
محرم الحرام اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف ہجری سال کا آغاز کرتا ہے بلکہ اپنی روحانی، تاریخی اور مذہبی حیثیت کی بنا پر مسلمانوں کے دلوں میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ محرم کے ساتھ ہی اسلامی سال کی روحانی فضا قائم ہوتی ہے اور یہ مہینہ ہمیں صبر، قربانی، وفاداری اور حق پر ثابت قدمی کا پیغام دیتا ہے۔اسلامی شریعت میں محرم کو ان چار محترم مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جنہیں قرآن مجید میں ’’حرمت والے مہینے‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت 36 میں فرماتا ہے:> ’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جو اُس کی کتاب میں اس دن سے ہے جس دن اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اُن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔‘‘ان چار مہینوں میں محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ شامل ہیں۔ ان مہینوں میں جنگ و جدال کو حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ امن و آشتی کو فروغ دیا جا سکے۔محرم کا دسواں دن، یومِ عاشورہ خاص فضیلت کا حامل ہے۔ نبی کریم ؐ نے اس دن کے روزے کو گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔‘‘اس دن کی اہمیت صرف اسلامی روایات میں نہیں بلکہ سابقہ امتوں میں بھی رہی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی غرقابی پر شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا، اور نبی اکرم ؐ نے بھی اسے جاری رکھا۔
اسلامی تاریخ کا سب سے دردناک، سبق آموز اور روح کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ سانحۂ کربلا ہے، جو 10 محرم الحرام 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں پیش آیا۔ یہ واقعہ فقط ایک جنگ نہیں بلکہ حق اور باطل، انصاف اور ظلم، ایمان اور فسطائیت کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا۔ اس واقعے نے دین ِ اسلام کی بقاء کو ممکن بنایا اور پوری انسانیت کو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا پیغام دیا۔جب یزید بن معاویہ نے خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا اور دین کی روح کو مسخ کرنے لگا، تو امام حسینؑ نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے فرمایا:’’میں ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ساتھ نہیں دے سکتا۔‘‘امام حسینؑ کا انکار، دراصل اسلام کی اصل روح کی حفاظت تھا۔امام حسینؑ اہلِ بیت اور اپنے وفادار ساتھیوں کے ہمراہ مکہ سے عراق کے شہر کربلا پہنچے۔ وہاں یزیدی لشکر نے اُن کا پانی بند کر دیا، بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور کیا اور 10 محرم کو ان پر حملہ کر دیا۔ امام حسینؑ کے ایک ایک ساتھی نے میدان میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور حق پر قربان ہو گئے۔حضرت علی اکبرؑ، حضرت قاسمؑ، حضرت عباسؑ، حتیٰ کہ چھ ماہ کے علی اصغرؑ کو بھی نہ بخشا گیا۔آخرکار10 محرم کو امام حسینؓ اور ان کے بہتر (72) جانثار شہید کر دئیے گئے۔ ان کے بچے، خواتین اور اہلِ خانہ قید کر لئے گئے، لیکن یہ قربانی تاریخ میں ایک ایسی مثال بن گئی جو رہتی دنیا تک مظلوموں کی آواز اور ظالموں کے خلاف احتجاج کا نشان ہے۔
محرم اور کربلا ہمیں چند عظیم ترین اسباق سکھاتے ہیں:حق پر ثابت قدمی۔ امام حسینؓ نے جان دے دی، لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔قربانی کی روح۔ دین و ایمان کے لیے ہر قسم کی قربانی کو قبول کرنا۔صبر و استقامت ۔کربلا کا ہر لمحہ صبر، برداشت اور یقین کا نمونہ ہے۔ظلم کے خلاف آواز۔امام حسینؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ظالم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا خود ظلم ہے۔
آج جب دنیا میں ظلم، ناانصافی اور باطل قوتیں سر اٹھا رہی ہیں تو واقعۂ کربلا ہمیں جرأت، سچائی اور عدل کا سبق دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کو صرف غم اور عزاداری تک محدود نہ رکھیں بلکہ امام حسینؓ کی سیرت اور مقصد کو اپنائیں، اپنے کردار، معاشرہ اور قوم کو بہتر بنائیں۔محرم الحرام محض اسلامی سال کا آغاز نہیں بلکہ روحانی بیداری اور ایمانی تجدید کا مہینہ ہے۔ کربلا کی لازوال قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ وقت اور حالات جیسے بھی ہوں، حق کے لیے کھڑا ہونا ایمان کی علامت ہے۔ امام حسینؓ نے ہمیں سکھایا کہ سر کٹایا جا سکتا ہے، مگر باطل کے سامنے جھکایا نہیں جا سکتا۔