سیدہ عطیہ تبسم
پیار، محبّت، عشق ان الفاظ کو سنتے ہی اکثر اشخاص اپنے تصورات میں کئی قسم کے منفی اصنام تراشنے لگتے ہیں ۔ اور بچے ہوئے چند مثبت خیالی میں ان الفاظ کو اپنے آسمان کی بلندیوں پر سجاتے ہیں۔ ہم محبّت کسے سمجھتے ہیں اور محبّت دراصل ہے کیا؟ اگر ہم محبّت کو موجودہ دور کے سماجی تناظر میں دیکھیں تو شاید ہی اس سے بد نام کوئی اور لفظ ملے۔ محبّت کے تصورات اور مشاہدات کو ایک مخصوص پیرائے میں بند کیا گیا ہے۔ چند ملاقاتیں، کچھ تحایف اور طلسمی وعدوں کو محبّت کا نام دیا جاتا ہے جن میں حقیقت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ان اقدام کو اُس عمر میں اٹھانے کی جرأت کی جاتی ہے جہاں انسان کو اپنے وجود کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا ہے، محبّت جیسے عظیم احساس تو دور کی بات ہے۔
آجکل ٹین ایجرز (teenagers) کے لئےمحبّت ایک ایسا مشغلہ بن گیا ہے ،جسے وہ(love themes) اور (love culture) کے نام پر فروغ دیتے ہیں ۔اس لو کلچر میں محبت کو ایک ایسی نا اہلی اور پسمردگی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو انسان کے عظم حوصلے اور بلندی کے سفر کو ناکامی کا جامہ پہنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتی۔ چاہے وہ ناکام محبت میں بازو کاٹنا ہو، یا پنکھے سے لٹک کر اپنی جان دے دینا، ہر حربہ آزماناجائز ہے۔ چاہے وہ ویلنٹائنز (valentine’s) پر مہنگے تحائف دینا ہو یا پھر برتھ ڈیز (birthday’s) پر اپنے (budget) سے باہر سرپرایز پارٹیز ( surprise parties) ارینج کرنا ہو ۔ اس محبت کی آمد کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کے ضمیر اتنے پسماندہ ہو چکے ہیں کہ وہ ان فضول خرچیوں کے لئے اپنے والدین کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے ریلیشن شپس کو بزنس ڈیل کہا جائے تو بہتر ہے۔ مختصر یہ کہ اس محبت میں ہر زیادتی، ہر رسوائی اور ہر شدّت پسندی قابلِ قبول ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا محبت ظالم و جابر ہو سکتی ہے۔ محبت فقط “محبوب” کو محبوب رکھنے کا نام تو نہیں ہے۔ محبت تو وہ بے لوث وحی ہے جو اپنے اردگرد کے ہر صحرا کو سمندر کرنے کا حوصلے رکھتی ہے۔
اس کائنات کی ہر خوبصورتی محبت کی مرہون منت ہے۔ یہاں تک کہ رب نے اس خوبصورت کائنات کو اپنے محبوب کی محبت میں بنایا۔ محبت نہ ہو تو آسمان سوکھی زمین پر پانی نہ برسائے، شجر سورج کی تپش کو برداشت کرکے کسی اور کو چھاؤں نہ دیں اور سورج خود غروب ہو کر چاند کو روشن نہ کر جائے۔ محبت کے لیے کوئی دن، تاریخ، مہینہ یا سال مقرر نہیں یہ تو زندگی کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ۔محبت صرف حاصل کرنے اور پانے کا نام نہیں یہ تو ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔ محبت تو انسان کے وجود کو تراشتی ہے، نکھارتی ہے، سنوارتی ہے اور ہر طرح کی کدورت سے پاک کرتی ہے۔ مگر محبت کے اپنے اصول و ضوابط ہیں اور جو خودغرضانہ روش اختیار کر کے ان اصولوں کی قدر نہ کرے، وہ محبت نہیں ہوتی ۔ تقی عثمانی صاحب نے اس طرح سے محبت کو پیش کیا ہے:
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاع ِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
محبت اللہ سے ہو یا کسی انسان سے، یہ تو عاجزی اور انکساری سکھاتی ہے۔ انسان کا یہ جذبہ ٔ محبت اگر پاک اور پر نور ہو تو کائنات کی ہر محبت پر بھاری پڑ جاتی ہے۔ چو نکہ جو خاص دل اللہ نے اشرف المخلوقات کو عطا کیا ہے وہ کسی دوسری مخلوق کا مقدر نہ بن سکا ۔ جن جذبات کیفیات اور احساسات کو یہ دل سمیٹ کر رکھتا ہے، کائنات کی کوئی دوسری شے نہیں رکھ سکتی ہے۔ شاعر نے اسی احساس کو الفاظ میں بیان کیا ہے:
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
مگر یہ دل، یہ خلوص، یہ احساس، یہ پاکیزگی، یہ قربانی کا جذبہ، ہر کسی کا مقدر بھی نہیں یا پھر شاید ہر کسی کی کوشش نہیں ہوتی۔ دراصل محبت وہ وحی ہے، جس کا نزول کچھ خاص دلوں پر ہوتا ہے، اس پر ایمان لانے والے مخصوص اور ثابت قدم رہنے والے چند ہی ہوتے ہیں۔
(رابطہ۔9797875771)
[email protected]